Friday, 24 September 2021

صوبہ خیبر پختونخوا میں پشتون قبائل کی قبضہ گیری کب اور کیسے ھوئی؟

01- گیارھویں صدی عیسوی میں کارلنری ڈویژن سے تعلق رکھنے والے افغانوں کے "دلزاک" قبیلہ نے مشرقی افغانستان سے نقل مکانی کی اور خیبر پاس کو عبور کرکے پشاور کے میدانی علاقوں میں آباد ھوگیا۔ انہوں نے جو گاؤں بنائے وہ کم تھے۔ اس علاقے میں بہت کم کاشت کاری ھوتی تھی اور زیادہ تر لوگ جانوروں کو پالتے تھے۔ اس علاقے کے لوگ پرامن تھے اور ابھی تک مسلمان نہیں ھوئے تھے۔ انہوں نے "دلزاک" قبیلہ کی آمد پر کسی بھی طرح کی لڑائی یا خون خرابہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ انہیں اپنے کام کاج میں شامل کرلیا تھا۔ کچھ ھی وقت میں سرداروں کے کچھ خاندانوں کے درمیان شادیاں ھونے کے بعد اصل باشندے اور "دلزاک" قبیلہ کے افراد آپس میں گھل مل گئے۔ کیونکہ اس علاقے کے اصل باشندوں نے دین اسلام قبول کرلیا تھا۔

اس علاقے کے اصل باشندوں کے ساتھ شادیوں اور نئے رسم و رواج اختیار کرنے کی وجہ سے "دلزاک" قبیلہ کے افراد اپنی باقی قوم سے الگ ھوگئے۔ اپنے قائد ملک یحییٰ خان کی سربراھی میں "دلزاک" قبیلہ کے افراد نے بڑی تعداد میں محمود غزنوی کی مہموں میں حصہ لیا تھا۔

02 - تیرھویں صدی کے اوائل میں شہاب الدین غوری کے زمانے میں ' لودھی شاخ کے پُرنگی اور سور قبائل اور ان کے رشتہ دار سروانی ' موجودہ مشرقی افغانستان سے نقل مکانی کرکے کوہ سلیمان کے نیچے کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک پر قابض ھوگئے۔

پُرنگی اور سور قبائل ٹانک اور روڑی کے مقامات پر دامان کے علاقے میں آباد ھوئے۔ جبکہ سروانی ' لونی کے جنوب میں دربان اور چندوآن اور آس پاس کے اضلاع میں آباد ھوئے۔ ان کے ساتھ بلچ (یہ بلوچ نسل کے لوگ نہیں ھیں) ، خسور اور دوسرے قبیلے آئے۔ جنہوں نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر سالٹ رینج کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور اب بھی اس مقام پر آباد ھیں۔

03۔ شہاب الدین غوری کے دور میں منگل اور ھانی قبائل ضلع بنوں کے علاقے پر قابض ھوگئے۔

04۔ خٹک کی پہلی آبادکاری پیر غل چوٹی کے قریب شمالی وزیرستان میں وادئ شوال میں ھوئی تھی۔ وہ وھاں سے مشرق کی طرف بنوں کی طرف چلے گئے اور پشتونوں کے ھانی اور منگل قبائل کے درمیان آباد ھوگئے۔ پھر اس علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرلی۔

05- منگل اور ھانی قبائل کو چودھویں صدی کے دوران وادئ شوال سے تعلق رکھنے والے خٹک سے وابستہ ایک قبیلے شیتک (بنوچی) نے باھر نکال دیا۔ منگل اور کچھ ھانی خوست اور کرم کے مغرب میں پہاڑوں کی طرف نقل مکانی کرگئے۔ جہاں وہ اب بھی موجود ھیں۔

06- پھر شیتک نے ماضی میں کرم کے بائیں کنارے آباد رھنے والے کمزور خٹک خاندانوں کو آھستہ آھستہ نکالنا شروع کر دیا۔ اس طرح کمزور خٹک خاندان آھستہ آھستہ ضلع کوھاٹ کے جنوبی حصے میں پھیل گئے۔

07- بنگش قبیلہ پہلے وادئ کرم میں آباد ھوا۔ پندرھویں صدی کے آغاز میں وہ آھستہ آھستہ میران زئی میں چلا گیا اور بالآخر اورکزئیوں کو کوھاٹ کے علاقے سے بے دخل کردیا۔ انہوں نے یہ کام خٹک کے ساتھ اتحاد کرکے کیا۔ جو کہ اس وقت ضلع کوھاٹ پر جنوب سے حملہ کر رھے تھے۔ اورکزئی اس سے قبل دریائے سندھ پر ریسی تک قابض تھے۔ خٹک نے مشرقی علاقے ریسی ' پٹیالہ اور زیرا کو اپنے قبضہ میں لیا۔ بنگش نے کوھاٹ کی وادئ پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ شاید سن 1505 میں بابر کے حملے سے قبل مکمل ھو چکا تھا۔

08- نیازی نے ابتدائی طور پر غزنی کے جنوب میں واقع ضلع شیلغر کے ایک علاقے پر قبضہ کیا۔ جب غلزئی کی تعداد زیادہ ھوگئی تو انہوں نے نیازی کو مشرق کی طرف دھکیل دیا اور نیازی نے جنوب کی طرف نقل مکانی کرنا شروع کردی۔ یہاں تک کہ پندرھویں صدی میں وہ ٹانک پہنچ گئے۔ وھاں انہیں پناہ ملی اور ان کے جوان بیوپاری اور پھیری لگانے والے بن گئے۔ اس کے بعد وہ شمال مشرق میں دریائے سندھ کی طرف پھیل گئے اور تھل کے صحرائی خطوں میں آباد ھوگئے۔

09- پندرھویں صدی کے آخر میں خاشی قبیلے یعنی یوسفزئی ، گیگیانی اور محمد زئی قبیلے جلال آباد سے اسپرنگ میں واقع ترتارا کے راستے سے پشاور کے میدانی علاقوں میں داخل ھوئے۔ انہوں نے "دلزاک" قبیلہ سے اس علاقے میں امن کے ساتھ رھنے کے لیے زمین کی بھیک مانگی تو اجازت دے دی گئی اور نووارد دوآبہ میں آباد ھوگئے۔

10- خاشی قبائل اپنے وعدہ پر زیادہ دیر تک قائم نہ رھے اور "دلزاک" قبیلہ کے ساتھ کیا گیا وعدہ توڑ دیا۔ یوسفزئی نے اپنے سربراہ ملک احمد کی قیادت میں گیگیانی ، محمد زئی اور عثمان خیل کے ساتھ مل کر "دلزاک" قبیلہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔

1515 عیسوی میں دریائے سوات کے شمال کی جانب ایک بڑی جنگ لڑی گئی۔ جس میں "دلزاک" قبیلہ کے بہت زیادہ لوگ مارے گئے اور وہ ھزارہ کی طرف بھاگ گئے۔ گیگیانی نے اپنے حصے کے طور پر دوآبہ وصول کیا۔ محمد زئی کو ھشتنگر اور یوسفزئی کو دریائے کابل کے شمال کا علاقہ دیا گیا تھا۔ عثمان خیل کو دریائے سوات کی پہاڑیوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ قبائل اب بھی اس علاقے پر قابض ھیں۔

"دلزاک" بہترین تیرانداز تھے۔ یوسف زئی ماھر تلوار باز تھے۔ یوسفزئی نے لڑائی میں قریب آنے سے پہلے تیروں کی وجہ سے آنے والے تباھی سے بچنے کا بندوبست کیا۔ ملک احمد نے کئی ڈھالیں اکٹھا کیں۔ جن کی اوٹ لیکر یوسفزئی زخمی ھوئے بغیر تیزی سے "دلزاک" کے سامنے آگئے اور بڑی تعداد میں "دلزاک" کی لاشیں گرا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ دریائے کابل کے جنوب میں واقع پشاور کا میدانی علاقہ اب بھی "دلزاک" کے پاس ھے۔

11- یوسفزی مزید فتح پر تلے ھوئے تھے اور سوات پر قبضہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس مقصد کے لیے شوکوٹ منتقل ھوگئے۔ سواتی مورا پاس پر جمع تھے اور یوسفزئی پہاڑیوں کے دامن پر اس طرح آگے بڑھ رھے تھے۔ گویا کہ وہ ایک دم حملہ کردیں گے۔ لیکن رات کے وقت انہوں نے مالاکنڈ پاس کی طرف تیزی سے رخ موڑ لیا اور اپنی خواتین کو کیمپ میں چھوڑ دیا۔ جن کی رات کے وقت موسیقی اور گانا سواتیوں سے ان کے منصوبوں کو چھپا رھے تھے۔ طلوع ھوتے سورج کے ساتھ حملہ آور یوسفزئیوں کی چمکتی ھوئی تلواریں سواتیوں کو نظر آئیں۔ جنہوں نے درہ پاس کرکے اچانک حیرت زدہ سواتیوں پر حملہ کردیا۔ سواتیوں نے ایک کمزور مزاحمت کی۔ یوں یوسفزئی نے زیریں سوات پر قبضہ کرلیا۔ یہاں کے باشندے جزوی طور پر یوسفزئیوں کے مزارعے بنے رھے۔ لیکن بیشتر باشندے ھزارہ کی وادئ پختلی میں فرار ھوگئے۔ اس وقت بالائی سوات پر قبضہ نہیں کیا گیا تھا۔ وہ اپنے سلطان کے تحت آزاد رھا۔ ترکانی اس وقت یوسفزئی سے علیحدہ ھوگئے اور باجوڑ کا ایک حصہ لے لیا۔

12- اس طرح خاشی افغانوں سے بیسول ' جلال آباد اور لغمان خالی ھوگیا اور غوریہ خیل قبیلوں کے قبضے میں آگیا۔ خلیل قبیلے مہمند اور داؤد زئی پر مشتمل ھیں۔ انہوں نے لال پورہ اور وادئ پشاور کے درمیان پہاڑیوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کردیا۔ اب وہ مہمند کے علاقے پر بھی قابض ھیں۔

13- مغل ھمایوں نے 1553 میں پشاور میں قلعے کو دوبارہ تعمیر کیا۔ جسے "دلزاک" نے 1530 ء میں تباہ کردیا تھا۔ اس میں سکندر خان ازبک کی کمان میں ایک مضبوط فوج رکھی گئی تھی اور اس قلعے کو پڑوسی "دلزاک" کے خوف کی وجہ سے دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ "دلزاک" نے جلد ھی اس پر حملہ کردیا لیکن ازبک کمانڈر نے انہیں پسپا کردیا۔

اگلے ھی سال میں ھمایوں نے دوبارہ دھلی جانے کے لیے اسی راستے سے دریائے سندھ عبور کیا۔ اس کے جانے کے بعد خلیل ' مہمند اور داؤد زئی قبائل پر مشتمل غوری خیل افغانی پشاور کے میدانی علاقوں میں داخل ھوئے اور "دلزاک" کو بے دخل کرتے ھوئے ان علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ جن میں وہ اب رھتے ھیں اور ان علاقوں کے نام اپنے نام پر رکھ لیے ھیں۔ جبکہ "دلزاک" کو بے دخل کرکے دریائے سندھ کے دوسری طرف دھکیل دیا۔

14- نوحانیوں (مروت ' دولت خیل ' میا خیل اور تتور) نے 1556ء میں شہاب الدین غوری کے زمانے سے دامن (ٹانک) میں آباد پرنگیوں اور سوریوں پر حملہ کیا۔ جنگ اتنی سخت تھی کہ پرانگیوں کا تقریباََ خاتمہ ھوگیا تھا اور جو بچ گئے تھے وہ ھند میں اپنے رشتہ داروں میں شامل ھوگئے۔

سوریوں کو بھی پنجاب اور ھند کے دیگر علاقوں میں دھکیل دیا گیا۔ لہذا لوھانی وادی گومل اور دامان کے واحد قابض اور مالک بن گئے۔ حاصل شدہ علاقہ ٹانک کے راستے کو چار نوھانی قبائل کے مابین چار مساوی حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ جنہوں نے پرانگیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ دولت خیل ' کٹی خیل اور حیدر خیل خود ٹانک میں آباد ھوئے۔ یعقوب خیل کو ٹانک شہر کے قریب واقع قصبہ دبارہ میں آباد کیا گیا تھا۔ تاتور خیل کو تاتور (ٹانک کے قریب) میں آباد کیا گیا تھا۔ مروت نے اپنی زمینیں دولت خیل کو لیز پر دی تھیں۔ ان کی مستقل رھائش وزیرستان میں تھی۔ اسی عرصے میں نوحانی قبیلے کے میا خیل اور بختیاروں نے سروانیوں پر حملہ کیا اور انہیں درھبان سے بے دخل کردیا۔

15- اسی عرصے میں شیرانی قبیلے کے ایک حصے بابر نے تخت سلیمان کے پہاڑوں سے نیچے کے میدانی علاقوں میں اتر کر جاٹ اور بلوچ آبادی کو محکوم کر لیا۔

16- سولھویں صدی کے آخر میں وزیر اور محسود قبائل نے وانا اور میکین کو مروت سے چھین لیا۔ اس کے نتیجے میں مروت سترہ صدی کے آغاز میں 1602 کے آس پاس مستقل رھائش کے لیے ٹانک آگئے۔ مروت نے مکمل طور پر ٹانک نقل مکانی کرنے کے بعد دولت خیل کو لیز پر دی گئی اپنی زمینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ دولت خیل نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس لیے مروت کی دولت خیل کے ساتھ لڑائی شروع ھوگئی۔ مروت نے دولت خیل کو شکست دے کر ٹانک سے بے دخل کردیا۔

شہباز خان کٹی خیل کی سربراھی میں بے دخل دولت خیل کو گنڈہ پور اور بابر کی مدد ملی تو مروت پر حملہ ھوا اور مروت شکست کھا گئے۔ دولت خیل نے دوبارہ قبضہ کرلیا اور مروت کا حصہ بھی لے لیا۔ مروت نے پیزو پاس کو عبور کیا اور نیازیوں کے مابین اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر شمال کی طرف لکی تھل میں داخل ھوئے اور وھاں آباد نیازیوں پر حملہ کردیا۔ انہوں نے اپنے نیازی رشتہ داروں کو ٹانگ درہ کے مشرق میں میانوالی کی طرف دھکیل کر کرم اور گمبیلہ کے کنارے اپنے کالے خیمے لگا دیے اور چرواھے بن کر رھنے لگے۔ محسود نے بھوٹانیوں کو جنوبی وزیرستان میں ان کے علاقوں سے بے دخل کردیا تھا اور انہوں نے ٹانک اور بنوں کی مغربی سرحد پر پہاڑیوں پر قبضہ کیا ھوا تھا۔

17- اٹھارویں صدی کے اوائل میں سید جلال بابا کے کارلگ ترکوں کو ملک بدر کرنے کے موقع پر جدون نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور دھمٹور کے علاقے میں رھنے لگے۔ تقریبا سو سال بعد انہوں نے باقی چند "دلزاک" سے بگڑا ٹریک لے لیا۔ سکھوں کے علاقہ فتح کرنے سے کچھ ھی عرصہ پہلے ان کے حسن زئی قبیلے نے کرال کو وادی نیلان کے ایک حصے سے محروم کردیا۔

ایسا لگتا ھے کہ علاقے کے قدیم گوجر باشندوں کی دعوت پر ترین افغانستان سے ھزارہ آئے تھے۔ ترینوں نے ھری پور ضلع میں میدانی علاقوں پر آھستہ آھستہ قبضہ کرلیا اور اس علاقے کے گوجروں کے ایک بڑے حصے کو نکال دیا۔ گجروں نے دریائے سندھ کے پار سے عثمان زئی کو ترینوں کے خلاف مدعو کیا۔ لیکن عثمان زئی نے گجروں سے دریا کے کنارے کا گند گڑھ ٹریک چھین لیا۔ مشوانی بھی قبضہ کرنے کے لیے عثمان زئی کے ساتھ ملے ھوئے تھے۔ وہ عثمان زئی کے ساتھ آئے اور سری کوٹ پر قبضہ کرلیا۔

18- اٹھارویں صدی کے وسط میں عثمان زئی نے اور شیرانی افغانوں سے وابستہ ایک سید قبیلے نے ' موسی خیل کے ساتھ جھگڑا کرکے پہاڑوں کے نیچے کے ھموار علاقے کو حاصل کرلیا۔ جہاں وہ اب بھی رھتے ھیں۔

19- مغرب کی طرف سے آخری بڑی قبضہ گیری درویش خیل وزیر کی تھی۔ 1750 سے 1775 کے درمیان وزیر کے جانی خیل اور بکا خیل خاندانوں نے ٹوچی (گمبیلہ) اور پہاڑیوں کے درمیان پڑی میری کی چرنے والی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد وزیر کے محمد خیل اور احمد زئی خاندانوں نے کرم کے دھانے پر واقع پتھریلی زمین پر قبضہ کرلیا اور اس کے فورا بعد ھی احمد زئی نے خٹک اور مروت کو نکال کر ' چراگاھوں کو خالی کروا کر کرم کے بائیں کنارے سے تھل پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔

No comments:

Post a Comment