Monday 21 September 2020

قوموں کی ترقی کے لیے زبان ' تہذیب و ثقافت کیوں اھم ھیں؟

قوم کی سماجی عزت کے بغیر قوم کو انتظامی بالادستی اور قوم کی انتظامی بالادستی کے بغیر قوم کو معاشی خوشحالی حاصل نہیں ھوا کرتی۔ پاکستان میں یوپی ' سی پی کے علاقوں سے آنے والوں نے خود کو مھاجر قرار دے کر پاکستان میں مھاجروں کے لیے سماجی عزت حاصل کرکے مھاجروں کے لیے انتظامی بالادستی بھی حاصل کی اور انتظامی بالادستی حاصل کرنے کے بعد مھاجروں کے لیے معاشی خوشحالی بھی حاصل کی۔

یوپی ' سی پی کے علاقوں سے آنے والوں کی اکثریت پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں جبکہ سب سے بڑی تعداد میں دارالحکومت کراچی میں آباد ھوئی۔ انہوں نے مھاجر کا لیبل نسل در نسل منتقل بھی کیا اور اسے مزید مضبوط بھی کیا۔ مھاجرت سے جڑے "بیانیہ" کو پروان چڑھا کر اسے بحسن و خوبی استعمال کر کے مقامی لوگوں کا سماجی ' انتظامی ' معاشی استحصال بھی کیا اور مسلسل کرتے آرھے ھیں۔

مھاجروں کا "بیانیہ" یہ ھے کہ؛ پاکستان دراصل ان کے آباﺅ اجداد کی جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ھے (مشرقی پنجاب کے 20 لاکھ مارے جانے والے اور 2 کروڑ بے گھر کیے جانے والے پنجابیوں کا نہیں) لیکن ان کی آئندہ نسلوں کو اس کا کوئی خاطرخواہ صلہ نہیں مل رھا۔

قیام پاکستان کے بعد یو پی ' سی پی سے آئے اردو بولنے والے مسلمان مھاجروں کی (جنہیں ھندوستانی مھاجر کہا جاتا ھے) پاکستان میں انتظامی بالادستی قائم کرنے کے لیے پہلے ھندوستانی مھاجروں کو سماجی طور پر مستحکم کیا گیا اور پاکستان کی سرکاری زبان اردو قرار دے دی گئی۔ ھندوستانی مھاجروں کو اردو زبان کا فائدہ ھوا۔ انہوں نے سرکاری ملازمتوں پر چھا کر دفتری امور میں مھارت اور سرکاری قواعد و ضوابط سے زیادہ واقفیت حاصل کرلی۔ اس لیے بیوروکریسی ' تعلیم اور وکالت کی وجہ سے حکومت ' بینکنگ اور صنعت کی وجہ سے معیشت جبکہ صحافت کی وجہ سے ذرائع ابلاغ پر قابض ھوگئے۔

جبکہ ایک عام مقامی پنجابی اور خصوصاً سندھی تعلیم میں بہت پیچھے تھا اور اردو زبان پر بھی مھارت نہیں رکھتا تھا۔ مشرقی پنجاب سے آیا مسلمان پنجابی مقامیوں سے تعلیم و ھنر میں نسبتاً بہتر تھا۔ مگر اردو بولنے والے مھاجر سے پھر بھی کم تھا۔ کیونکہ پنجابی اور سندھی باشندوں کا پس منظر زیادہ تر دیہی تھا اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی دیہی ھی رھا۔ جبکہ اردو بولنے والوں کی اکثریت شہری علاقوں سے تعلق رکھتی تھی اور پاکستان کے شھری علاقوں پر قابض بھی ھوگئی تھی۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان نے پاکستان کا وزیر اعظم بنتے ھی پاکستان میں ھندوستانی مھاجروں کی سماجی بالادستی کے لیے اقدامات کرنے کے علاوہ اپنے حامیوں کا ایک مضبوط حلقہ تشکیل دینے کی خاطر اردو بولنے والے مھاجروں کو پاکستان کے انتظامی معاملات کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اچھی اور قیمتی جائیدادیں الاٹ کیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان کا سب سے بڑا شھر لاھور اور دوسرا بڑا شھر راولپنڈی تھا۔ اس لیے لاھور کی انارکلی ' شاہ عالمی ' رنگ محل ' گوالمنڈی اور ماڈل ٹاﺅن جبکہ راولپنڈی میں راجہ بازار ' موھن پورہ اور آریہ محلہ وغیرہ کی زیادہ تر جائیدادیں اردو بولنے والے مہاجروں کو الاٹ ھوئیں۔ بلکہ ان کی بندر بانٹ ھوئی۔

جبکہ جعلی کلیموں کی آڑ میں پاکستان میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ پاکستان کے قیام سے پہلے کا سرگودھا شہر پنجابی سکھوں کی اکثریت پر مبنی تھا اور ان کا بسایا ھوا شہر تھا۔ پنجابی مسلمانوں کی اکثریت سرگودھا کے مضافاتی دیہات میں رھتی تھی۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد تقریباً پورا سرگودھا ان مسلمان مھاجروں کو الاٹ کیا گیا جو اصل میں غیر پنجابی تھے۔

ھندوستانی مھاجروں کو انتظامی اور معاشی طور پر مستحکم کرنے کے علاوہ سماجی طور پر بھی مستحکم رکھنے کے سلسلے کو بدستور جاری رکھا گیا۔ پاکستان کی صحافت پر ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول تھا۔ اس لیے اخبارات اور ریڈیو پر ھندوستانی مھاجر چھائے ھوئے تھے۔ لیکن پاکستان ٹیلی ویژن کا جب آغاز ھوا تو ھندوستانی مھاجروں کی زندگی کے سماجی پہلو کو پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے بھی فروغ دیا جانے لگا۔ ھندوستانی مھاجروں کے علاقوں کے رھن سہن ' رسم و رواج ' لباس اور زبان کو منصوبہ بندی کے ساتھ منظم انداز میں فروغ دیا جاتا رھا تھا۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے جن ڈراموں کی آج بھی شہرت ھے۔ انہیں لکھنے والے فاطمہ ثریا بجیا ' حسینہ معین یا سلیم احمد تھے۔ ان کے ڈراموں کے کرداروں کے لباس ساڑھی ' غرارہ ' چوڑی دار پاجامہ اور مردوں کے لیے آڑا پاجامہ یا اچکن ھوا کرتے تھے۔ اندرون سندھ ' پنجاب و سرحد کے ایک عام دیہاتی مرد و عورت کا لباس دکھانا تو جیسے شجر ممنوعہ تھا۔ ان ڈراموں کے کردار جو زبان بولتے تھے۔ اس کا تعلق پاکستان سے نہ تھا۔ کردار کی زبان یا تو دھلی اور لکھنو شہر کی نستعلیق اردو یا پھر دھلی اور لکھنو کے مضافاتی علاقوں کی بگڑی ھوئی دیہاتی اردو ھوا کرتی تھی۔ جو پاکستان کے کسی دیہات میں بولی نہیں جاتی تھی۔

یہ تو 70ء کی دھائی کے وسط سے ھونا شروع ھوا کہ؛ پنجابی اور سندھی لکھاری اپنے اردو ڈراموں کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے اندرون پنجاب اور اندرون سندھ کا حقیقی کلچر دکھانا شروع کیا۔ مثال کے طور پر امجد اسلام امجد کا مشہور ڈرامہ "وارث" ' نورالہدی شاہ کا "جنگل" اور اصغر ندیم سید کے ڈراموں کی وجہ سے ھندوستانی مھاجروں کے پھیلائے گئے گنگا جمنا تہذیب و ثقافت کا اثر و رسوخ قدرے کم ھونا شروع ھوا اور پاکستان کی اصل تہذیب و ثقافت سامنے آنا شروع ھوئی۔

ھندوستانی مھاجروں نے پاکستان کی تہذیب و ثقافت پر گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت کا جو غیر مرئی سا ھالہ کھینچ رکھا تھا اور اپنی سماجی بالادستی کی وجہ سے ایک ان دیکھے اقتدار کی کنجی کو اپنے دائرہ اثر میں لیا ھوا تھا۔ اس کا مہین پردہ پنجابی اور سندھی لکھاریوں کی کاوشوں سے آھستہ آھستہ چاک ھو گیا اور اس جادو اثر دائرے تک پنجابی اور سندھی قوموں کی رسائی بھی ممکن ھوگئی۔

پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دوسری سب سے بڑی قوم سندھی نے اپنی سماجی عزت ' انتظامی بالادستی ' معاشی خوشحالی کے لیے اردو زبان ' گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت کی بالادستی سے نجات حاصل کرنے اور سندھی زبان ' سندھی تہذیب ' سندھی ثقافت کو فروغ دینے کی سرگرمیاں 70ء کی دھائی سے شروع کی ھوئی تھیں۔ لیکن دیہی علاقوں میں رھنے اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں میں کم تعداد میں رھنے کی وجہ سے سندھیوں کے پاکستان کی سطح پر بیوروکریسی ' تعلیم ' وکالت ' بینکنگ ' صنعت ' صحافت پر غلبہ نہ ھونے کی وجہ سے سندھیوں سے ھندوستانی مھاجروں کا پاکستان کی سطح پر سماجی ' انتظامی ' معاشی غلبہ تو ختم نہ کروایا جاسکا لیکن سندھ میں کسی حد تک کامیاب رھے۔

پنجابی قوم نہ صرف پاکستان کی 60% آبادی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی قوم ھے۔ بلکہ دیہی علاقوں میں رھنے کے علاوہ پاکستان کے بڑے بڑے شھروں میں بھی پنجابیوں کی آبادی سب سے زیادہ ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کے افراد کا پاکستان کی سطح پر بیوروکریسی ' تعلیم ' وکالت ' بینکنگ ' صنعت ' صحافت پر غلبہ بھی ھے۔

پاکستان میں اردو زبان اور گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت کا غلبہ ھونے اور پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب و ثقافت کا غلبہ نہ ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کے افراد کا بیوروکریسی ' تعلیم ' وکالت ' بینکنگ ' صنعت ' صحافت میں غلبہ انفرادی حیثیت میں ھے اور پنجابی قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کے افراد کی پاکستان میں نہ سماجی عزت ھے۔ نہ انتظامی بالادستی ھے۔ نہ معاشی خوشحالی ھے۔ اس لیے پنجابیوں میں پنجابی قوم پرستی کا رحجان بڑھنے لگا ھے۔ لہذا اب پنجابیوں نے بھی انفرادی کے بجائے پنجابی قوم کی سماجی عزت ' انتظامی بالادستی ' معاشی خوشحالی کے لیے پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کرنا شروع کردی ھے۔

پنجابی زبان ' تہذیب و ثقافت کے فروغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بڑے بڑے شھروں میں اردو زبان ' گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت کا غلبہ ختم ھوتا جائے گا۔ مستقبل میں اردو زبان ' گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت کو پاکستان میں کراچی کے اندر ھندوستانی مھاجروں کے علاقوں تک محدود ھونا پڑنا ھے۔ دیہی سندھ میں سندھی زبان اور سندھی تہذیب و ثقافت کا غلبہ ھوتا جا رھا ھے۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی زبان اور پنجابی تہذیب و ثقافت نے فروغ پاتے جانا ھے۔

قوموں کی سماجی عزت ' انتظامی بالادستی ' معاشی خوشحالی کے لیے زبان ' تہذیب و ثقافت کی ترقی انتہائی اھمیت رکھتی ھے۔ اس لیے پنجابی اور سندھی زبان ' تہذیب و ثقافت کی ترقی کے ساتھ ساتھ پنجابی اور سندھی قوموں کی سماجی عزت ' انتظامی بالادستی ' معاشی خوشحالی میں اضافہ ھوگا۔ جبکہ پنجاب اور سندھ میں ھندوستانی مھاجروں کا سماجی ' انتظامی ' معاشی غلبہ ختم ھوتا جائے گا۔ اس لیے ھندوستانی مھاجروں کا پاکستان کی سطح پر بیوروکریسی ' تعلیم ' وکالت ' بینکنگ ' صنعت ' صحافت اور بڑے بڑے شھروں میں بالادستی والا کردار ختم ھوجائے گا۔

No comments:

Post a Comment