Monday 21 September 2020

خان عبدالولی خان کے مطابق پاکستان کا وزیر اعظم پنجابی ھونا کیوں ضروری ھے؟

ذوالفقار علی بھٹو 1958ء میں صدر جنرل اسکندر مرزا کی کابینہ میں وزیر تجارت رھا۔ 1958ء تا 1960ء تک صدر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر واٹر اینڈ پاور ' کیمنیوکیشن ' انڈسٹری رھا اور بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا معاھدہ کرکے پنجاب کے دریا بھارت کو بیچ دیے۔

ذوالفقار علی بھٹو صدر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں 1960ء تا 1962ء تک وزیر اقلیتی امور ' قومی تعمیر نو اور اطلاعات رھا۔ 1962ء تا 1965ء تک وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر رھا۔ جبکہ جون 1963ء تا جون 1966ء تک وزیر خارجہ بھی رھا۔

1967ء میں پنجابیوں نے لاھور میں پی پی پی کو بنا کر ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین بنا دیا اور 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پنجاب سے کامیابی حاصل کی اور ذوالفقار علی بھٹو زندگی میں پہلی بار جمہوری سیاست کرتے ھوئے عوامی نمائدہ کے طور پر منتخب ھوا۔

دسمبر 1971ء میں جنرل یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا پہلا سویلین چیف ماشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 تک پاکستان کے صدر مملکت کے عہدے پر فائز رھا اور 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت پاکستان کے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔

1977ء میں پیپلز پارٹی کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے سبب ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ھو گئی۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ ستمبر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ 18 مارچ 1978ء کو ھائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے ھائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

مغربی پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی نے پنجاب سے سیاسی لیڈر شپ پیدا کرنے کے بجائے ایک سندھی کو پنجاب کا سیاسی لیڈر اور پاکستان کا وزیر اعظم بنا کر اس کا بھی بیڑا غرق کیا۔ اپنا بھی بیڑا غرق کیا اور سندھیوں کا بھی بیڑا غرق کیا۔ جس طرح 1990 میں پنجابیوں نے پہلی بار پنجابی سیاسی لیڈر اور پاکستان کا وزیر اعظم بنایا۔ ویسے ھی یہ کام اگر 1967 میں پنجابیوں نے کر لیا ھوتا تو نہ بھٹو مارا جاتا۔ نہ پنجاب اور پنجابیوں کا نقصان ھوتا۔ نہ کوئی دوسرا سندھی بھی پٹھانوں اور بلوچوں کی طرح پنجاب کا سیاسی لیڈر اور پاکستان کا وزیر اعظم بننے کی کوشش کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ھونے کی کوشش کرتا۔ نہ پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی اور دوسری بڑی قوم سندھی کے آپس کے مراسم خراب ھوتے۔

پنجابیوں میں تو سیاسی شعور نہیں تھا۔ لیکن بھٹو میں اگر سیاسی شعور ھوتا تو کیا بہتر نہ ھوتا کہ؛ 1967ء میں پنجابیوں کے لاھور میں پی پی پی کو بناتے وقت پی پی پی کا چیئرمین بننے کے بجائے پی پی پی سندھ کا صدر بن جاتا اور پی پی پی کا چیئرمین کسی پنجابی کو بنواتا تاکہ؛ سندھی ذوالفقار علی بھٹو کے بجائے پاکستان کی سطح کا پنجابی سیاسی لیڈر ابھر کر سامنے آتا اور پی پی پی کے الیکشن جیتنے کے بعد پاکستان کا وزیر اعظم بنتا؟ اس سیاسی نقطے کا اظہار خان عبدالولی خان نے ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے غلام مصطفی کھر سے کیا تھا کہ؛ پاکستان کا وزیر اعظم پنجابی ھونا کیوں ضروری ھے؟

کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا سیاسی لیڈر بناتے وقت پنجابیوں کو احساس نہیں تھا کہ؛ پنجابی جس سندھی کو پنجاب کا لیڈر بناکر پاکستان کا وزیر اعظم بنا رھے ھیں۔ اس نے سندھیوں اور پنجابیوں کو قریب کرنے کے بعد پٹھانوں اور بلوچوں کو بھی آپس میں قریب لا کر مغربی پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو شیر و شکر کرنے کے بجائے الٹا خود بھی سندھی بن کر اور سندھیوں کو اپنی سیاسی طاقت بناکر خود کو چھوٹے صوبوں کا لیڈر بنانے کی کوشش کر کے سندھیوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کو پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف محاذ آرا کرنے کی کوشش کرنی ھے؟ تاکہ پنجابی قوم سیاسی قیادت سے محروم ھونے کی وجہ سے ھمیشہ کے لیے سندھی بھٹو کی غلام بنی رھے۔

سندھیوں کے چونکہ خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ خود لیڈر بننے کے بجائے مغربی پاکستان کی %60 آبادی ھونے کے باوجود پنجابی قوم کسی سندھی کو پاکستان کا سیاسی لیڈر اور وزیر اعظم بھی بنا سکتی ھے۔ اس لیے سندھی بھٹو کے پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے بعد سندھیوں نے نہ صرف پاکستان کی وفاقی حکومت کے سندھی کے پاس ھونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بلکہ پنجاب اور پنجابیوں کو بھی رگڑا لگانا شروع کر دیا۔ پنجاب کو چور ' ڈاکو ' لٹیرا قرار دینا شروع کر دیا۔ پنجاب کو سامراج قرار دے دے کر پنجاب اور پنجابیوں پر وہ وہ الزامات لگانا شروع کر دیے جن کے ذمہ دار پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان کے گورنر جنرل ' وزیر اعظم ' صدر یا فوج کے سربراہ رھنے کی وجہ سے یا تو مہاجر تھے یا پھر پٹھان تھے۔ بلکہ پنجاب اور پنجابیوں پر ایسے ایسے الزامات بھی لگانا شروع کر دیے جن کا خود پنجاب اور پنجابی نشانہ بنے ھوئے تھے۔ تاکہ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ھوجانے کی وجہ سے مغربی پاکستان کی سب سے بڑی قوم اور %60 آبادی ھونے کے باوجود بھی پنجاب اور پنجابی اپنے جائز حق سے محروم ھی رھیں اور اپنے جائز حق کی بات کرنے کے بجائے پنجاب اور پنجابیوں پر لگنے والے الزامات کی وضاحتیں ھی کرتے رھیں۔

پاکستان میں پہلی بار سندھی کے پاکستان کا وزیر اعظم بننے نے عام سندھی کو بھی شاؤنسٹ بنا دیا۔ جسکی وجہ سے سندھی نہ کسی کام کا رھا نہ کاج کا رھا۔ بلکہ سندھیوں نے پنجاب میں بننے والی پی پی پی کو بھی سندھ کی پارٹی بنا دیا۔ بلکہ دیہی سندھ اور سندھیوں کی پارٹی بنا دیا۔

پنجابیوں میں تو سیاسی شعور نہیں تھا۔ لیکن بھٹو میں اگر سیاسی شعور ھوتا تو؛ مغربی پاکستان کی %60 آبادی پنجابیوں کا مینڈیٹ ملنے کے بعد پنجاب اور پنجابیوں کے سیاسی اعتماد کو قائم رکھتا اور سندھیوں کے پنجابیوں کے ساتھ سیاسی اور سماجی رابطوں کو بہتر کرتا۔ جسکے بعد پٹھان اور بلوچ بھی پنجابیوں اور سندھیوں کے ساتھ گھل مل جاتے۔ اس طرح کا سماجی اور سیاسی ماحول بن جانے سے پاکستان کی اصل قوموں کے آپس میں باھمی تعاون کی وجہ سے پاکستان بھی ترقی کرتا اور پاکستان کی قومیں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ بھی ترقی کرتیں۔ بھٹو چونکہ پاکستان کی قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے درمیان ایک رابطہ کار ' مصالحت کار اور رھنما کا کردار ادا کر رھا ھوتا۔ اس لیے بھٹو بھی صرف سندھیوں کا ھی نہیں بلکہ پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ قوموں کا لیڈر ھوتا۔ جبکہ پی پی پی بھی صرف دیہی سندھ کے سندھیوں کی پارٹی بن کر نہ رہ جاتی۔ بلکہ پاکستان کے سارے صوبوں اور پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی پارٹی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی سطح کی سیاسی پارٹی ھوتی۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی قوم کی ھے۔ جبکہ 40% آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر قوموں کی ھے۔

پاکستان کی تمام قومیں پاکستان میں ھر جگہ آپس میں مل جل کر رہ رھی ھیں۔ اس لیے پاکستان میں کوئی بھی علاقہ کسی قوم کا "راجواڑہ" نہیں ھے۔ البتہ پاکستان میں انتظامی معاملات کے لیے یونین کونسلیں ' تحصیلیں ' ضلعے ' ڈویژنوں اور صوبے بنائے گئے ھیں۔

اپنا اپنا سماجی ' سیاسی ' معاشی تسلط قائم کرکے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے کو پٹھان اپنا "راجواڑہ" قرار دیتے رھتے ھیں۔ بلوچستان کے براھوئی علاقے ' دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کو بلوچ اپنا "راجواڑہ" قرار دیتے رھتے ھیں۔ کراچی کو ھندوستانی مھاجر اپنا "راجواڑہ" قرار دیتے رھتے ھیں۔

آمرانہ نظام میں تو آمر کے پاس حکومت ھونے کی وجہ سے ملک کے لیے پالیسی آمر بناتا ھے۔ لیکن جمہوری نظام میں ملک کے لیے پالیسی بنانا جمہوری حکومت کا کام ھوتا ھے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی اور فوج کا کام بنائی گئی پالیسی پر قانون کے مطابق عملدرآمد کروانا اور کرنا ھوتا ھے۔

چونکہ اپنی اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی بالادستی قائم کرلینے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر ' بلوچ اور پٹھان پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان پر آمرانہ یا جمہوری نظام کے تحت حکومت کرتے رھے ھیں۔ بلکہ اب بھی کر رھے ھیں۔ اس لیے پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان کی پالیسی پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر بناتے رھے ھیں۔

پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں میں پاکستان کے لیے پالیسی بنانے کی صلاحیت نہ ھونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے پالیسی ناقص بنتی رھی ھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں سماجی انتشار ' معاشی بحران ' انتظامی بدنظمی اور اقتصادی بربادی کا ماحول ھے۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی آبادی چونکہ پاکستان میں پنجابی قوم کے مقابلے میں بہت کم ھے۔ اس لیے آمرانہ یا جمہوری نظام کے تحت پاکستان کی حکومت سمبھالنے کے بعد بھی پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کو پنجابی قوم کا خوف رھتا ھے۔ اس لیے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پنجابی قوم کے خلاف سازشوں میں مصروف رھتے ھیں۔

پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پنجابیوں پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے عنوان سے "بیانیہ" بناکر پنجابیوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا ھے۔ تاکہ پنجابی قوم کی طرف سے پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں کا محاسبہ نہ کیا جاسکے۔

پاکستان کی 60% آبادی چونکہ پنجابی قوم کی ھے۔ اس لیے پاکستان میں سماجی استحکام ' معاشی آسودگی ' انتظامی بہتری اور اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان میں "پنجابی راج" قائم کرنا پڑے گا۔ تاکہ پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں کی پنجابی قوم کے خلاف سازشوں کو ختم کیا جاسکے اور پاکستان کے لیے بہترین پالیسی بنائی جاسکے۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی جب تک پاکستان میں "پنجابی راج" قائم کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت خود نہیں سمبھالے گی۔ اس وقت تک؛

1۔ نہ تو پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں سے پاکستان کے لیے بہترین پالیسی بنائی جاسکنی ھے۔

2۔ نہ پاکستان کی مظلوم قوموں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کو سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' سیاسی استحکام ' انتظامی انصاف ملنا ھے۔

3۔ نہ پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں نے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے عنوان سے "بیانیہ" بناکر پنجابیوں کو ذلیل و خوار کرنے سے باز آنا ھے۔

No comments:

Post a Comment