پٹھان غفار خان ' بلوچ خیر بخش مری ' عربی نزاد جی - ایم سید ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر الطاف حسین کے " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجاب اور پنجابی قوم پر بے بنیاد الزامات لگا کر ' بے جا تنقید کرکے ' تذلیل کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کی وجہ سے پنجابی کو " بستہ ب بدمعاش" بنانے کے سلسلہ نے بھی فروغ پایا۔
پنجابیوں کو " بستہ ب بدمعاش " بنانے میں ھندوستانی مھاجروں ‘ پٹھانوں ‘ بلوچوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ لیکن پٹھان اور بلوچ چونکہ اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور بڑے بڑے شھروں پر ویسا غلبہ حاصل نہیں کرپائے جو یو پی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پاکستان کے قائم ھوتے ھی حاصل کرلیا تھا۔ اس لیے پنجابیوں کو " بستہ ب بدمعاش" بنانے میں اھم کردار یو پی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے گھڑے گئے افسانوں ' طوطا کہانیوں اور الف لیلا کی داستانوں کا رھا۔ انہیں ھی پٹھان اور بلوچ دھراتے رھتے ھیں اور انکے ھی حوالے دیتے رھتے ھیں۔
پنجابی چونکہ پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے گھڑے گئے افسانوں ' طوطا کہانیوں اور الف لیلا کی داستانوں سے بیزار آچکے ھیں۔ اس لیے ھندوستانی مھاجروں کی چرب زبانی سے نجات کے لیے ھندوستانی مھاجروں کی "کھٹیا کھڑی" کرنے کے بارے میں سوچ رھے ھیں۔ عمر رسیدہ ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' سیاستدانوں اور صحافیوں کو چاھیے کہ؛ نوجوان ھندوستانی مھاجروں کو اور خاص طور پر پاکستان سے باھر رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کو سمجھائیں کہ؛ پنجابیوں کے ساتھ "زبان درازی" کرکے ھندوستانی مھاجروں کی "کھٹیا کھڑی" نہ کروائیں۔
عمر رسیدہ ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے گھڑے گئے افسانوں ' طوطا کہانیوں اور الف لیلا کی داستانوں میں سے تراشے ھوئے جملے اب "جملہ بازی" کے لیے استعمال نہ کیا کریں۔ وقت بدل گیا ھے۔ پنجابیوں کی آنکھوں میں خونخواری نظر آنے لگی ھے۔ یہ تذلیل اور توھین کے حد سے بڑھ جانے کی نشانی ھے۔ اس لیے ھندوستانی مھاجروں نے اپنی عادات اور حرکات کی اصلاح نہ کی تو پنجابیوں نے ھندوستانی مھاجروں کی "کھٹیا کھڑی" کردینی ھے۔
No comments:
Post a Comment