Monday 21 September 2020

در کھلیا حشر عذاب دا۔ برا حال ھویا پنجاب دا۔ (بابا بلھے شاہ)

احمد شاہ ابدالی 1747 ء میں 20 سال کی عمر میں افغانستان کی سلطنت قائم کرکے بادشاہ بن گیا تھا۔ چڑھتی عمر اور اقتدار کے نشہ کی وجہ سے اپنا راج بڑھانے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کی تیز نگاہ پنجاب پر مرکوز ھوئی۔ اس کے جاسوس کاروبار کے بہانے پنجاب سے سارے راز لے جاتے تھے۔

احمد شاہ ابدالی نے جارح اور لٹیرا بن کر پنجاب پر 1748 ء سے لیکر 1767 ء تک 8 حملے کیے لیکن 1762 ء سے لیکر 1767 ء تک کے تین حملے خصوصی طور پر سکھوں کو ختم کرنے کے لیے کیے گئے۔

احمد شاہ ابدالی جب دلی ’ کرنال ’ پانی پت ’ متھرا اور آگرہ سے سونا ’ چاندی ’ مال و اسباب لوٹ کر بہنوں ’ بیٹیوں کو ریوڑ کی طرح اپنے سپاھیوں کے آگے ھانک دیتا تھا تو اس وقت ھندو مورتیوں کے آگے ھاتھ جوڑے آرتیاں ھی کرتے رہ جاتے اور بہنوں ‘ بیٹیوں کے سودے ھو جاتے تھے۔ جبکہ پنجاب کے مسلمانوں میں سے بہت سے احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ملے ھوئے تھے۔

بابا بلھے شاہ نے اس دور کا نقشہ یوں کیھنچا۔ مغلاں زھرپیالے پیتے ۔ بھوریا والے راج کیتے ۔ سب اشراف پھرن چپ چپیتے۔

پنجاب میں یہ کہاوت بن گئی تھی “کھادھا پیتا لاھے دا ’ باقی احمد شاھے دا” یعنی جو کچھ کھا پی لیا وھی غنیمت ھے باقی تو احمد شاہ لے جائے گا۔

اس دور میں پنجاب میں خوب لوٹ مار کا بازار گرم ھوا۔ احمد شاہ ابدالی کے سپاھی گھروں میں سے جہاں بھی دانے اور گہنے ملتے لے جاتے تھے۔ اس کیفت پر بابا بلھے شاہ نے اس طرح تبصرہ کیا؛

در کھلیا حشر عذاب دا ۔

برا حال ھویا پنجاب دا۔

No comments:

Post a Comment