Friday 17 January 2020

پنجاب کے ساتھ ظلم تحریر: مظہر برلاس

پاکستان میں اکثر وبیشتر کتابیں اور مضامین اِس حوالے سے لکھے گئے کہ پنجاب نے باقی تین صوبوں کے ساتھ ظلم کیا۔ کبھی کسی نے پنجاب سے اِس کا درد نہیں پوچھا۔ کسی نے پنجاب کے دکھ بیان بھی نہیں کیے۔

پاکستان سمیت افغانستان کی غذائی ضروریات پورا کرنے والے صوبے کے ساتھ دو مرتبہ بہت بڑا ظلم ھوا۔

پنجاب کےساتھ پہلا ظلم 1947میں ھوا جب پورے برصغیر کے تمام صوبے اپنی اپنی جگہ پر رھے مگر سرسبز کھلیانوں کے صوبے پنجاب کو تقسیم کر دیا گیا۔ پنجاب کو تقسیم کے کئی دکھ سہنا پڑے۔

پہلا دکھ کہ صوبہ تقسیم ھو گیا۔ دوسرا دکھ پنجابیوں کا قتلِ عام ھوا۔ پنجاب کے دریا خون سے سُرخ ہوئے۔ تیسرا دکھ پنجابی زبان کا زوال شروع ھو گیا۔ چوتھا دکھ پنجاب کی ثقافت اور رھتل تیزی سے تبدیل ھونے لگی۔ ھمارے پنجاب سے تو تہبند ' لاچا اور پگڑی غائب ھی ھو گئے۔

پانچ دریاؤں کے صوبے کا پانچواں دکھ اس پر ھونے والا سیاسی و انتظامی ظلم ھے۔ بھارتی پنجاب کو وھاں کی حکومت نے تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا مگر آج بھی بھارتی پنجاب پورے بھارت کی غذائی ضروریات پوری کر رھا ھے۔ ھمارے پنجاب میں حکومتیں سازشوں کا شکار رھیں۔

ھمیں پہلے 30 سال یہی سنایا جاتا رھا کہ پنجاب وسائل پر قابض ھے۔ پنجاب ظلم کر گیا۔ پنجاب زیادتی کر گیا مگر درحقیقت ان 30 برسوں میں پنجاب کے ساتھ زیادتی ھوتی رھی۔ سونا اگلنے والے صوبے پر کسی نے توجہ ھی نہ دی۔

یہاں پانی کا جو نظام اس وقت تھا وھی آج ھے بلکہ آج کا نظامِ آب پاشی تباہ حال ھے۔ ھم نے اپنے نہری نظام کو برباد کیا۔ پنجاب کے کئی علاقے ایسے ھیں جہاں سے نہریں گزرتی ھیں مگر وھاں کے لوگ ایک بوند پانی استعمال نہیں کر سکتے۔

آدھے سے زیادہ پنجاب بارانی ھے۔ پانی کی اس کمی کو چھوٹے ڈیم بنا کر پورا کیا جا سکتا تھا لیکن پنجاب پر حکومت کرنے والوں کو کون سمجھاتا کہ اس صوبے کے ندی نالوں کا پانی ضائع ھو جاتا ھے۔ اسے ضائع ھونے سے بچایا جا سکتا ھے۔

پنجاب میں زراعت کو جدید بنانے کیلئے کئی ایک ریسرچ سینٹرز بنانے کی ضرورت تھی مگر افسوس ایسا بھی نہ ھو سکا۔ خاص طور پر نئے اور طاقتور بیجوں پر کوئی کام نہ ھو سکا۔ وقت کی رفتار سے ھماری زراعت کو پیچھے رکھا گیا۔ اس کا بڑا نقصان یہ ھوا کہ پیداوار کم ھونا شروع ھو گئی۔

آج سے  50 سال پہلے پنجاب کے بہت سے علاقوں میں کپاس کاشت ھوتی تھی۔ رفتہ رفتہ کپاس کا علاقہ بھی کم ھوگیا۔ پچاس برس پہلے تو پنجاب کے ھر گائوں میں عورتیں چرخہ کاتتی تھیں۔

اس کا مطلب ھے کہ ھر گاؤں میں پھٹی ھوتی تھی۔ پچاس برس پہلے تک باجرہ اور مکئی کی کاشت بھی بہت تھی۔ نصف صدی پہلے تک پنجاب کے اکثر باسیوں نے دیسی گھی کے علاوہ کسی اور گھی کا نام نہیں سنا تھا۔ تازہ مکھن اور دیسی گھی خوراک کا حصہ تھے۔ آج ایسا نہیں ھے۔

سرسوں کے کھیت پورے پنجاب کو بسنتی بنا دیتے تھے مگر آج ایسا نہیں۔ گوشت اور اناج مہنگا نہیں تھا۔ ھمارے ھاں کماد کاشت ھوتا تھا۔ گڑ شکر عام تھے۔ آج پنجاب کے باسیوں کو مردان ' چارسدہ اور صوابی سے گڑ آتا ھے۔ ھمارا بہترین چاول رفتہ رفتہ اپنی اھمیت کھوتا گیا۔

پنجاب کی زمینیں اپنے باسیوں کا پیٹ بھرنے سے قاصر نظر آنے لگیں تو وسطی پنجاب کے لوگوں نے یورپ اور امریکہ کا رُخ کیا۔ ھر گھر سے کوئی نہ کوئی باھر چلا گیا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سے لوگ مشرق وسطیٰ مزدوری کیلئے چلے گئے۔

یہ دکھوں کی کہانی ھے۔ کون پردیس کا رخ کرتا ھے؟ اپنی دھرتی کو کون چھوڑتا ھے؟ مگر خاندانوں کو پالنے کیلئے لوگوں کو ایسا کرنا پڑا۔ ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک مزدوریاں کرنا پڑیں۔

اردو ادب اور صحافت کی خدمت بھی پنجابیوں نے زیادہ کی۔ وہ خود ظلم کا شکار بھی رھے اور ظالموں میں شمار بھی ھوتے رھے۔ آمدنی کی کمی نے ان کے میلے بھی ختم کر دیئے۔

پنجاب پر دوسرا بڑا ظلم پچھلے چالیس برس سے ھو رھا ھے۔ ایک زرعی صوبے کی باگ ڈور ایسے افراد کے ھاتھوں میں ھے جن کا زراعت سے نہ کوئی تعلق ھے اور نہ ھی کوئی دلچسپی۔

پچھلے چالیس برسوں میں پنجاب پر زیادہ تر شریف خاندان کی حکومت رھی۔ انہوں نے زمینداروں کو تنگ کرنے کا ھر حربہ آزمایا۔ کچھ عرصہ گجرات کے چوھدری بھی پنجاب کے حکمران رھے مگر وہ خود کو زمیندار نہیں بلکہ کاروباری کہلوانا پسند کرتے ھیں۔

وہ بھی شوگر ملوں کے مالکان میں سے ھیں۔ ان کی توجہ بھی صنعتوں پر رھی۔ عارف نکئی اور منظور وٹو تو بہت تھوڑے عرصے کیلئے حکمران رھے۔ منظور وٹو نے پھر بھی زرعی طبقے کیلئے کچھ کام کیا۔

اب پنجاب کی تقدیر تونسہ کے بزدار کے حوالے کر دی گئی ھے۔ پنجاب پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ھو سکتا ھے جہاں کبھی رنجیت سنگھ کا راج تھا اب وھاں بزدار کا بسیرا ھے۔

50 سال پہلے پنجاب کا زمیندار کاروبار سے دور بھاگتا تھا۔ دکانداری نہیں کرتا تھا۔ آج ھر زمیندار نے کوئی نہ کوئی کاروبار کھول رکھا ھے یا نوکری کر رھا ھے اور خوشحالی سے کہیں دور ھے۔

چالیس برسوں نے پنجاب کےساتھ وہ ظلم کیا ھے جس کا ازالہ صدیوں میں ھوگا۔ کاشتکار پس کر رہ گیا ھے۔ جو سبزیاں ھم اپنے مویشیوں کو کھلایا کرتے تھے اب انسانوں کی پہنچ سے دور ھو گئی ھیں۔ چالیس برس کے دکھوں کیلئے مجھے ایک اور قسط لکھنا پڑے گی۔ فی الحال اقبال ؒکا شعر یاد آ رھا ھے کہ؛
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ھر خوشۂ گندم کو جلا دو

No comments:

Post a Comment