Sunday, 19 January 2020

پنجابی ' پنجابی لہجے میں اردو بول کر اردو کا مذاق کیوں اڑاتے ھیں؟

14 اگست 1947 کو پاکستان بنا اور 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں قائد اعظم محمد علی جناح نے انگریزی زبان میں اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہہ دیا کہ؛ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ھو گی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھونگے۔

بس اس کے بعد کیا تھا؟

اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پاکستان کے اصل باشندوں بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے اپنے اپنے لہجے میں اردو بولنے اور لکھنے پر تذلیل اور توھین کر کر کے اردو کے لہجے اور اردو کی املا کی درستگی کا سلسلہ شروع کردیا۔

بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی طرف سے اپنی زبان کے حق کی بات کرنے پر ملک دشمن قرار دیا جانے لگا۔

اردو بولنے والے ھندوستانی اھلِ زبان جبکہ بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ بے زبان قرار پائے۔

اردو بولنے والے ھندوستانی تہذیب یافتہ جبکہ بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ غیر تہذیب یافتہ قرار پائے۔

اردو بولنے والے ھندوستانی تعلیم یافتہ جبکہ بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ جاھل قرار پائے۔

یہ اردو زبان کا ھی کرشمہ ھے کہ پاکستان کی آبادی کے 2٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پاکستان کے قیام کے بعد بھارت سے آنے والے 6٪ گجراتی ' راجستھانی ' مراٹھی ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والے مھاجروں پر اپنی سماجی بالادستی قائم کرکے انہیں اپنا سیاسی غلام بنایا ھوا ھے۔

یہ اردو زبان کا ھی کرشمہ ھے کہ پاکستان کی آبادی کے 12٪ سندھیوں ' 8٪ پٹھانوں ' 4٪ بلوچوں کی زبانوں کو انکی اپنی اپنی زمین پر بھی پلپنے نہیں دیا جارھا۔ اس لیے سندھیوں ' پٹھانوں اور بلوچوں کی اکثریت کے پاکستان کے صرف دیہی علاقوں میں مستقل رھنے کی وجہ سے ' نہ انکے تعلیمی معیار کو بڑھنے دیا جارھا ھے اور نہ انکو معاشی طور پر مستحکم ھونے دیا جارھا ھے۔

یہ اردو زبان کا ھی کرشمہ ھے کہ پاکستان کی آبادی کے 60٪ پنجابی اپنی ھی زمین پر اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ھونے کی وجہ سے اپنی ثقافت اور تہذیب بھول بھال کر سماجی احساسِ کمتری کا شکار ھوکر پاکستان میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے سماجی غلام بنے ھوئے ھیں اور پاکستان کے تعلیمی اداروں ' سرکاری دفتروں ' اسمبلیوں اور عوامی اجتماعات میں اپنی زبان پنجابی کے بجائے پنجابی لہجے میں اردو بول کر اپنا وقار اور اپنی قوم کی عزت مجروح کرتے رھتے ھیں۔

اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کے باوجود پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک وفاقی اداروں میں سرکاری امور انگریزی زبان میں انجام دیے جاتے ھیں۔ کیا  21 مارچ 1948کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں جناح صاحب نے انگریزی زبان میں اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ھو گی کا اعلان اس لیے کیا تھا کہ؛

1۔ بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ اپنے اپنے صوبے کی سرکاری و تعلیمی زبان اردو اختیار کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے باعزت روزگار کے ذرائعے پیدا کریں اور خود با عزت روزگار سے محروم ھونا شروع کردیں؟

2، بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ اپنے اپنے صوبے کی سرکاری و تعلیمی زبان اردو اختیار کرکے اردو زبان کی بالادستی کے احساس میں مبتلا ھوکر خود احساسِ کمتری میں مبتلا ھونا شروع کردیں؟

3۔ بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ اپنے اپنے صوبے کی سرکاری و تعلیمی زبان اردو اختیار کرکے اپنی مادری زبان کو اپنے ھاتھوں سے ختم کریں؟

4۔ بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ اپنے اپنے صوبے کی سرکاری و تعلیمی زبان اردو اختیار کرکے اپنے اپنے مادری زبان کے لہجے میں اردو بول کر اردو کا مذاق اڑایا کریں؟

نوٹ : اردو زبان کی بالادستی کے لیے ' حکومتی سطح پر اردو کی سرپرستی کرکے ' اردو کو فروغ دینے کے لیے ' پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابیوں کو ' پنجابی زبان کے بجائے اردو میں تعلیم دینے کی وجہ سے ' پنجابیوں کی اکثریت پنجابی لہجے میں اردو بولنے پر مجبور ھے۔

پنجابی قوم دنیا کی نوویں سب سے بڑی قوم ھے۔
پنجابی قوم جنوبی ایشیا کی تیسری سب سے بڑی قوم ھے۔
پنجابی مسلمان مسلم امہ کی تیسری سب سے بڑی برادری ھے۔
پنجابیوں کی پاکستان میں آبادی 60 فیصد ھے۔
لیکن پنجابی زبان کے بجائے اردو زبان بولنے کی وجہ سے پنجابی قوم کی اپنی شناخت ختم ھوتی جا رھی ھے۔ پنجابی قوم لہجوں اور علاقوں میں بکھرتی جارھی ھے۔ پنجابی قوم کی ثقافت ' تہذیب اور تاریخ ختم ھوتی جا رھی ھے۔

No comments:

Post a Comment