Sunday, 5 January 2020

مزارات کے گدی نشینوں کی پولیٹیکل اکانومی۔ تحریر : اکمل سومرو لاہور

پنجاب میں اس وقت مزارات کی تعداد 598 ہے، ان میں 64 درباروں کے گدی نشین، متولی اور پیر آج بھی براہ راست سیاسی نظام میں حصہ دار ہیں۔ سرگودھا، جھنگ، پاکپتن، ساہیوال، وہاڑی، منڈی بہاو الدین، اوکاڑہ، حجرہ شاہ مقیم، ملتان، چشتیاں، خیرپور ٹامیوالا کے گدی نشین براہ راست انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، یہاں کے گدی نشین پہلی بار جنگ آزادی کے مجاہدین کو کچلنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست راست بنے اور ان گدی نشینوں نے انگریزوں کے حق میں فتویٰ دیے اور جنگ کو بغاوت قرار دیا اور انعام کے طور پر جاگیریں پائیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان گدی نشینوں کو انگریزوں نے نوآبادیاتی عہد کے پاور سٹرکچر میں شامل کیا اور کورٹ آف وارڈز کے ذریعے سے انھیں مستقل سیاسی طاقت دی گئی۔

کورٹ آف وارڈز سسٹم کے تحت جن گدی نشینوں کو جاگیریں دی گئیں ان کی تفصیلات بھی ملاحظہ کیجئے:

1930ء میں شاہ پور کے غلام محمد شاہ، ریاض حسین شاہ کو 6423 ایکٹر جاگیر۔

اٹک کے سردار شیر محمد خان کو 25185 ایکٹر۔

جھنگ کے شاہ جیونا خاندان کے خضر حیات شاہ، مبارک علی، عابد حسین کو 9564 ایکٹر۔

ملتان کے سید عامر حیدر شاہ، سید غلام اکبر شاہ، مخدوم پیر شاہ کو 11917 ایکٹر۔

ملتان کے گردیزی سید جن میں سید محمد نواز شاہ، سید محمد باقر شاہ، جعفر شاہ کو 7165 ایکٹر۔

جلال پور پیر والا کے سید غلام عباس، سید محمد غوث کو 34144 ایکٹر۔

گیلانی سید آف ملتان جس میں سید حامد شاہ اور فتح شاہ کے نام 11467 ایکٹر۔

دولتانہ خاندان کے اللہ یار خان آف لڈھن کو 21680 ایکٹر۔

ڈیرہ غازی خان کے میاں شاہ نواز خان آف حاجی پور کو 726ایکٹر۔

مظفر گڑھ کے ڈیرہ دین پناہ خاندان کے ملک اللہ بخش، قادر بخش، احمد یار اور نور محمد کو 2641 ایکٹر۔

ستپور کے مخدوم شیخ محمد حسن کو 23500 ایکٹر جاگیر دی گئی۔

آج ان خانوادوں کے جانشین اور اولادیں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر براجمان ہیں اور جمہوریت کے چمپئن ہیں۔

برطانوی استعمار نے جاگیریں دینے کے ساتھ ساتھ درباروں کے گدی نشین خاندانوں کو ذیلدار کے عہدوں پر بھی تعینات کیا۔ اس میں؛

مظفر گڑھ سے دیوان محمد غوث، سید باندے شاہ، خان صاحب مخدوم محمد حسن، سید تراب علی شاہ، سید عامر احمد شاہ، سید غلام سرور شاہ، سید جند وڈا شاہ۔

میانوالی سے سید قائم حسین شاہ، غلام قاسم شاہ، شاہ پور سے پیر چن پیر، سید نجف شاہ، فیروز دین شاہ، پیر سلطان علی شاہ، علی حیدر شاہ۔

جھنگ سے محمد شاہ، اللہ یار شاہ، محمد غوث اور بہادر شاہ کو ذیلدار کا عہدہ دیا گیا۔

ہندستان پر برطانوی تسلط کے 180 سال بعد 1937ء میں محدود جمہوری انتخابات کرائے تو یونینسٹ پارٹی میں شامل انہی جاگیرداروں، گدی نشینوں اور پیروں کو منتخب کرایا گیا۔ 1946ء کے انتخابات میں بھی یہی خاندان برسر اقتدار آئے۔

جنوبی پنجاب کے گیلانیوں ، قریشیوں کے علاوہ وسطی پنجاب سے پیر نصیر الدین شاہ آف کمالیہ، شاہ جیونا آف جھنگ، مخدوم سید علی رضا شاہ آف سندھلیانوالی، مخدوم ناصر حسین شاہ، پیر محی الدین لال بادشاہ آف مکہد شریف اٹک نمایاں تھے۔ یہی خاندان یونینسٹ پارٹی کو چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور اپنے مفادات کو پاکستان کی حمایت سے جوڑ دیا۔

قیام پاکستان کے بعد ان گدی نشین پیروں نے قومی جمہوری اور مارشل لاء کی سیاست میں مستقل طور پر اپنا وجود قائم کر لیا۔ ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے تصور سے لے کر ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں اسلامائزیشن کے تصور کو رائج کرنے اور جنرل پرویز مشرف کے روشن خیال تصورات کی حمایت میں یہ گدی نشین پیش پیش رہے۔ پھر یہی نواز شریف اور اب عمران خان کے پشتی بان ہیں ۔

قومی و صوبائی سیاست میں نمائندہ درباروں کے یہ با اثر گدی نشین اور پیروں کے حلقہ جات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہاں شرح خواندگی تشویش ناک حد تک کم ہے۔ درباروں کے یہ مذہبی نمائندے اپنے مُریدوں سے نزرانے، منتیں، مرادیں لیتے ہیں اور محکمہ اوقاف پر ان کا ہمیشہ مکمل کنٹرول رہا ہے۔

گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں وزیر اوقاف نے رپورٹ جمع کرائی کہ محکمہ کے زیر انتظام مزارات کی تعداد 544 ہے اور ان مزارات سے سالانہ آمدن ڈیڑھ ارب سے زائد ہوتی ہے، یعنی سرکار کے کھاتے میں مُریدوں اور زائرین کے نذرانوں سے بس اتنی رقم جمع ہوتی ہے۔ مزارات سے منسلک زرعی جاگیروں پر ملی بھگت سے مقامی افراد قابض ہیں اور ان جاگیروں کا رقبہ سینکڑوں ایکڑز ہے۔ متعدد مزارات کی گدی نشینی دراصل اب جانشینی میں تبدیل ہو چکی ہے اور انہی گدی نشینوں یا متولیوں کے تحت ہی سالانہ عرُس کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment