Monday 27 January 2020

پنجابی زبان کا شاہ مکھی رسم الخط اردو اور سندھی رسم الخط سے قدیم ھے۔


زبان کو بولنے کے لیے الفاظ ھوتے ھیں۔ لیکن الفاظ کو لکھنے کے لیے رسم الخط کی ضرورت ھوتی ھے۔ دنیا بھر میں کسی بھی رسم الخط کے حروف کسی بھی زبان کے الفاظ کی آواز کو درست طریقہ سے ادا نہیں کرسکتے۔ کسی بھی زبان کے الفاظ کی آواز کی درست ادائیگی اس زبان کو بولنے والا ھی کرسکتا ھے۔ جس طرح رومن میں پنجابی الفاظ لکھیں تو اس کی درست ادائیگی صرف پنجابی بولنے والا ھی کرسکتا ھے۔ انگریزی بولنے والا نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر کسی پنجابی کو انگریزی ' عربی ' فارسی بولنا نہیں آتی تو وہ ان زبانوں کے الفاظ کی آواز کی درست ادائیگی نہیں کرسکے گا۔

1800 عیسوی میں انگریز کے فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں اردو زبان کو وجود میں لانے سے پہلے پنجابی زبان کے الفاظ کو صدیوں سے فارسی رسم الخط کی طرز پر لکھا جاتا تھا اور پنجابی رسم الخط کو شاہ مکھی کہا جاتا ھے۔ پنجابی زبان کا گرومکھی رسم الخط بھی ھے جو کہ 1603 میں وجود میں لایا گیا اور سکھ مذھب کی کتاب "گرو گرنتھ صاحب" 1603 سے 1604 میں گرومکھی رسم الخط میں لکھی گئی۔ گیارھویں صدی کے بابا فرید گنج شکر کو پنجابی زبان کا پہلا شاعر کہا جاتا ھے اور گرو گرنتھ صاحب کے حصہ بھگت بانی میں بابا فرید شکر گنج کا کلام شامل ھے۔

انگریز نے سندھی زبان کا رسم الخط 1900 عیسوی میں عربی رسم الخط کی طرز پر بنا کر دیا تھا۔ پنجابی زبان کا رسم الخط نہ ھونے اور پنجابی زبان کو اردو رسم الخط میں لکھنے کا دعویٰ کرنے والوں سے سوال ھے کہ؛

بابا بلھے شاہ اور سُلطان باھو کی شاعری کس رسم الخط میں لکھی گئی؟

ا اللّٰہ دِل رتّا میرا
مینوں ب دی خبر نہ کائ
ب پڑھیاں کُجھ سمجھ نہ آوے
ا دی لزّت آئ
ع تے غ دا فرق نہ جاناں
ایہ گل ا سُجھائ
بُلھیا! قَول ا دے پُورے
جیہڑے دِل دِی کرن صفائ
(بابا بلھے شاہ - 1680ء - 1757ء)

الف اللّه چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے هر جائی هو
اندر بوٹی مشک مچایا جان پهلن تے آئی هو
جیوے مرشد کامل باہو جنہے ایه بوٹی لائی هو
(سُلطان باہو - 1630ء - 1691ء)

No comments:

Post a Comment