پنجاب
کا اصل علاقہ دھلی سے پشاور اور کشمیر سے کشمور تک کا علاقہ ھے۔ 1947 میں پنجاب کی
تقسیم سے پہلے مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی تو پنجاب میں ھر جگہ ھی
مل جل کر رھتے تھے۔ لیکن پنجاب میں آباد پٹھان ' بلوچ ' ایرانی نزاد اور عربی نزاد
مسلمانوں کی اکثریت پنجاب کے مغربی علاقوں اور جنوب مغربی علاقوں میں ھی رھتی تھی۔
یہ علاقے پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کو تقسیم کرکے پاکستان میں شامل کردیے گئے۔
مہاراجہ
رنجیت سنگھ کا دور پنجابی حکمرانی کا دور تھا۔ پنجاب پر رھنے والی 777 سال تک کی
بیرونی مسلمان حملہ آوروں کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد پنجابیوں کو اپنی زمین پنجاب
پر حکمرانی کرنے کا موقع ملا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں مسلمان پنجابیوں
کے لیے نہیں بلکہ پنجاب میں آباد پٹھانوں ' بلوچوں ' ایرانی نزادوں اور عربی
نزادوں کے لیے حالات اچھے نہیں تھے۔ کیونکہ پنجاب پر بیرونی حملہ آور مسلمانوں کی
نہیں بلکہ پنجابیوں کی حکمرانی تھی۔
مہاراجہ
رنجیت سنگھ کے دور میں پنجاب میں آباد پٹھان ' بلوچ ' ایرانی نزاد اور عربی نزاد
کی مسلمان پنجابی پر ویسی سیاسی ' سماجی اور معاشی بالادستی نہیں رھی تھی جیسی
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے پہلے تھی یا مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور ختم ھونے کے
بعد انگریز دور میں دوبارہ قائم ھوئی اور پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر اب تک
قائم ھے۔
پاکستان کے قیام کی سات دھائیوں کے بعد پنجاب میں پنجابی
قوم پرستی نے ایک بار پھر سے فروغ پانا شروع کردیا ھے۔ پنجابی قوم پرستی کی وجہ سے
مسلمان پنجابی ' عیسائی پنجابی اور سکھ پنجابی میں سیاسی ' سماجی اور
معاشی ھم آھنگی بڑھ رھی ھے۔ اس لیے پنجاب
میں آباد پٹھان
' بلوچ ' ایرانی نزاد اور عربی نزاد بڑھتی ھوئی پنجابی قوم پرستی سے خائف ھیں اور انہوں نے انگریز
دور کے بعد سے لیکر اب تک کی پنجاب میں اپنی سیاسی ' سماجی اور معاشی بالادستی کو
ختم ھوتا ھوا محسوس کرنا شروع کردیا ھے۔
پنجاب
میں مسلمان پنجابی ' عیسائی پنجابی اور سکھ پنجابی میں بڑھتی
ھوئی سیاسی
' سماجی اور معاشی ھم آھنگی کو روکنے کے لیے پنجاب میں آباد پٹھان ' بلوچ '
ایرانی نزاد اور عربی نزاد کی طرف سے سازشیں اور شرارتیں کرکے پنجاب میں بڑھتی
ھوئی پنجابی قوم پرستی کو روکنے کی کوششیں بھی تیز ھوتی جارھی ھیں۔ اس لیے پنجابی
قوم پرستوں کو پنجاب میں بڑھتی ھوئی قوم پرستی کے خلاف ھونے والی سازشوں اور
شرارتوں کے تدارک کے لیے تیار رھنا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment