پاکستان
کے قیام سے لیکر پاکستان میں ڈرامہ یہ چل رھا ھے کہ پاکستان کی 60% آبادی پنجابی
ھونے کے باوجود؛ ایک طرف تو پاکستان کی پالیسی بنانے اور فیصلہ سازی کرنے میں
بالادستی والا کردار ھندوستانی مھاجر و پٹھان اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رھا۔
دوسری طرف ھندوستانی مھاجر و پٹھان دانشور یہ بتاتے رھے۔ صحافی یہ لکھتے رھے۔
سیاستدان یہ سمجھاتے رھے کہ پاکستان پر پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور پنجابی بیوروکریسی
راج کر رھی ھے۔ بلکہ بلوچ اور دیہی سندھ و جنوبی پنجاب کے عربی نزاد بھی پنجابی
قوم کے خلاف کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کے ھم جولی
بن گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ؛ اس وقت پاکستان داخلی سماجی و سیاسی بحران میں مبتلا ھے
اور صرف انتظامی اقدامات کے ذریعے پاکستان کو داخلی سماجی و سیاسی بحران سے نہیں
نکالا جاسکتا۔
در
اصل پاکستان کے قیام کے بعد خان غفار خان کی قیادت میں پٹھانوں نے ''پٹھان
کارڈ" اور خیر بخش مری کی قیادت میں بلوچوں نے "بلوچ کارڈ" کا
استمال شروع کرکے پاکستان کو پنجابستان ' پاکستان کی وفاقی حکومت کو پنجابی حکومت
' پاکستان کی فوج کو پنجابی فوج اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ
قرار دے دے کر پختونستان اور آزاد بلوچستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابیوں
کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو بھارت نے دامے ' درمے ' سخنے پٹھانوں اور
بلوچوں کی مدد کرنا شروع کردی۔ مشرقی پاکستان کو بھارت نے 1971 میں پاکستان سے الگ
کروا کر بنگلہ دیش بنوا دیا تو نہ صرف پٹھانوں اور بلوچوں کی بلیک میلنگ میں اضافہ
ھوا بلکہ جی ایم سید کی قیادت میں سندھیوں نے بھی سندھودیش کے نام پر پنجاب اور
پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کا سلسہ شروع کردیا۔
پٹھانوں
' بلوچوں اور سندھیوں کی بلیک میلنگ کی وجہ سے پاکستان تو سماجی اور معاشی طور پر
مفلوج ھونا شروع ھوگیا لیکن پٹھانوں ' بلوچوں اور سندھیوں کو کبھی مقامی ' صوبائی
اور وفاقی حکومت حاصل کرکے اور کبھی حکومت میں شامل ھوکر کرپشن اور کرائم کرنے کی
بھرپور آزادی حاصل ھونا شروع ھو گئی۔ جسے جمھوریت کا نام دیا گیا۔ عوام کی آواز
کہا گیا۔ پاکستان کو پنجابستان ' پاکستان کی وفاقی حکومت کو پنجابی حکومت '
پاکستان کی فوج کو پنجابی فوج اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ
قرار دے دے کر پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنے اور پاکستان دشمنی کے نعرے لگا
لگا کر پٹھانوں ' بلوچوں اور سندھیوں کی طرف سے حکومت حاصل کرکے کرپشن اور کرائم
کرنے کو دیکھ دیکھ کر الطاف حسین کی قیادت میں مہاجروں نے بھی "جئے
مہاجر" کا نعرہ لگا کر پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنے اور حکومت حاصل
کرکے کرپشن اور کرائم کرنے کا سلسہ شروع کردیا۔
در اصل بلوچستان کے بلوچ ایریا ' سندھ کے سندھی ایریا میں بلوچ ' بلوچستان اور
خیبر پختونخوا کے پٹھان ایریا میں پٹھان ' سندھ کے مھاجر ایریا میں ھندوستانی
مھاجر ' مقامی سطح پر اپنی سیاسی ' سماجی اور معاشی بالادستی قائم رکھنے کے ساتھ
ساتھ سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں پر اپنا راج قائم رکھنا چاھتے ھیں۔ ان کو
اپنے ذاتی مفادات سے اتنی زیادہ غرض ھے کہ پاکستان کے اجتماعی مفادات کو بھی یہ نہ
صرف نظر انداز کر رھے ھیں بلکہ پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی اور تعاون لینے اور
ان کے لیے پَراکْسی پولیٹکس کرنے کو بھی غلط نہیں سمجھتے۔ حالانکہ پختونستان کی سازش
نے خیبر پختونخوا کے انتظامی اور اقتصادی ماحول کو نقصان پہنچایا ' ھندکو کو سماجی
اور معاشی پیچیدگیوں میں الجھا دیا جبکہ پٹھان نوجوانوں کے مستقبل کو خراب کیا۔
آزاد بلوچستان کی سازش نے بلوچستان کے انتظامی اور اقتصادی ماحول کو نقصان پہنچایا
' براھوئیوں کو سماجی اور معاشی پیچیدگیوں میں الجھا دیا جبکہ بلوچ نوجوانوں کے
مستقبل کو خراب کیا۔ سندھودیش اور جناح پور کی سازش نے سندھ اور کراچی کے انتظامی
اور اقتصادی ماحول کو نقصان پہنچایا ' سماٹ کو سماجی اور معاشی پیچیدگیوں میں
الجھا دیا جبکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نوجوانوں کے مستقبل کو خراب کیا۔
خیبر پختونخوا ' بلوچستان ' سندھ اور کراچی میں مستقل آباد پنجابی تو “ملک دشمن
نظریاتی دھشتگردی” کا نشانہ بن کر بہت زیادہ خوف و حراص میں مبتلا ھیں۔ بلکہ اب تو
جنوبی پنجاب کے بلوچوں اور عربی نزادوں نے بھی خود کو سرائیکی قرار دے کر اور
"سرائیکی دیش" کا نعرہ لگا کر پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنے اور
حکومت حاصل کرکے کرپشن اور کرائم کرنے کا سلسہ شروع کردیا ھے۔
اس صورتحال کے باوجود پاکستان کی پالیسی بنانے اور فیصلہ سازی کرنے میں بالادستی
والا کردار ھونے کے باوجود ھندوستانی مھاجر و پٹھان اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی نے
کبھی بھی ان سازشوں کا سیاسی طور پر تدارک کرنے کی حکمت عملی نہیں بنائی۔ بلکہ
ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ اور دیہی سندھ و جنوبی پنجاب کے عربی نزاد
دانشوروں ' صحافیوں اور سیاستدانوں کو ھندوستانی مھاجر و پٹھان اسٹیبلشمنٹ اور
بیوروکریسی کی طرف سے درپردہ مدد اور سہولت فراھم کی جاتی رھی۔
اب پاکستان کو داخلی سماجی و سیاسی بحران سے نکالنے کے تین ھی طریقے ھیں؛
1۔
ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ اور دیہی سندھ و جنوبی پنجاب کے عربی نزاد دانشور
' صحافی اور سیاستدان خود ھی اپنی “ملک دشمن نظریاتی دھشتگردی” کے ذریعے پنجاب اور
پنجابیوں کو بلیک میل کرنا بند کرکے پنجابی قوم کے ساتھ اپنے سماجی و سیاسی مراسم
بہتر کرلیں۔
2۔
ھندوستانی مھاجر و پٹھان اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی ھندوستانی مھاجر ' پٹھان '
بلوچ اور دیہی سندھ و جنوبی پنجاب کے عربی نزاد دانشوروں ' صحافیوں اور سیاستدانوں
کو سمجھائے کہ؛ وہ اپنی “ملک دشمن نظریاتی دھشتگردی” کے ذریعے پنجاب اور پنجابیوں
کو بلیک میل کرنا بند کرکے پنجابی قوم کے ساتھ اپنے سماجی و سیاسی مراسم بہتر
کرلیں۔
3۔
پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور پنجابی بیوروکریسی پاکستان کی پالیسی بنانے اور فیصلہ سازی
کرنے میں بالادستی والا کردار سمبھال کر ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ اور دیہی
سندھ و جنوبی پنجاب کے عربی نزاد دانشوروں ' صحافیوں اور سیاستدانوں کو ھندوستانی
مھاجر و پٹھان اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی طرف سے فراھم کی جانے والی درپردہ مدد
اور سہولت ختم کروائے۔ جبکہ ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ اور دیہی سندھ و جنوبی
پنجاب کے عربی نزاد دانشوروں ' صحافیوں اور سیاستدانوں کی “ملک دشمن نظریاتی
دھشتگردی” کے ذریعے پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنا بند کروانے کے لیے پنجابی
' ھندکو ' سماٹ ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی
' گجراتی ' راجستھانی دانشوروں ' صحافیوں اور سیاستدانوں کو مدد اور سہولت فراھم
کرے۔
No comments:
Post a Comment