گنگا
جمنا تہذیب کے حامل اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا 70 سال سے جھوٹ سن
سن وادیء سندھ کی زمین پر قائم ملک پاکستان کی قوموں کے کان پک گئے ھیں کہ؛
اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی تعلیم یافتہ اور مہذب تھے۔ حالانکہ
اترپردیش میں 1920 سے پہلے تک کوئی یونیورسٹی نہیں تھی۔ 1920 میں جو علی گڑھ
یونیورسٹی قائم ھوئی۔ اس میں بھی یہ پڑھنے کے بجائے سیاست سیکھتے تھے۔ ھندوستانی
مھاجروں کو صرف اردو بولنا آتی تھی۔
اگر
پاکستان میں انگریز کی طرف سے 1800 عیسوی میں فورٹ ولیم کالج میں تیار کی گئی زبان
اردو کو پاکستان کی قومی زبان نہ بنایا جاتا تو اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے
پڑھے لکھے اور مہذب ھونے کا بھی پتہ چل جاتا۔
اردو بولنے والے ھندوستانی ' اترپردیش کے مدرسوں میں پڑھے ھوئے بدتہذیب لوگ تھے۔
جو پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کی حکومت ' سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں
پر قبضہ کرکے پاکستان کی اصل قوموں کو جاھل اور بد تہذیب کہتے رھے۔
اترپردیش
کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی سیاست ' صحافت ' سرکاری نوکریوں میں بالادستی
اور اردو زبان کا تسلط وادیء سندھ کی تہذیب کی حامل قوموں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو '
براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی '
راجستھانی کے لیے زھرِ قاتل ھے۔
یہ وادیء سندھ کی زمین پر قائم ملک پاکستان کی قوموں کی عزت ' وقار اور بقا کا
معاملہ ھے۔ وادیء سندھ کی تہذیب کی حامل قومیں اپنا ماضی برباد کر بیٹھی ھیں لیکن اب
اپنے بچوں کا مستقبل اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی سیاست ' صحافت '
سرکاری نوکریوں میں بالادستی اور اردو زبان کے تسلط کی وجہ سے تباہ نہیں ھونے دینا
چاھتیں۔
No comments:
Post a Comment