حُر
سندھی صوفیا کے سلسلہ راشدی کی ایک شاخ کے بانی پیر پگارا کے پیروکار ھیں۔ اس شاخ
کے پہلے پاگارو پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی اول اپنے والد امام العارفین پیر سید
محمد راشد شاہ روضہ دھنی بن سید محمد بقا شاہ کی وفات کے بعد مسند آرائے رشد و
ھدایت ھوئے اور پیر پگارا ’’صاحب دستار‘‘ کہلائے۔ ان کے دوسرے بھائی پیر جھنڈا کے
لقب سے ملقب ھوئے۔ پیر پگارا نے سرفروشوں کی ایک جماعت تیار کی اور انہیں حُر کا
نام دیا۔ اس وقت سے پیران پگارا کے مرید حُر کہلاتے ھیں۔
پہلی
حُر تحریک 1830ء میں پیر صبغت اللہ شاہ اول کے دور میں شروع ھوئی جب سندھ پر
تالپور بلوچ کا قبضہ تھا۔ دوسری حُر تحریک 1847ء سے 1890ء تک سید حزب اللہ شاہ تخت
دھنی کے دور میں شروع ھوئی جب سندھ پر انگریز نے قبضہ کرلیا تھا۔ حُر تحریک کا
تیسرا مرحلہ انگریز کے قبضے کے دوران 1895ء میں چلایا گیا۔ جبکہ پیر سید صبغت اللہ
شاہ ثانی المعروف سورھیہ بادشاہ نے 1928ء میں انگریز کے قبضے کے دوران ھی حُر
تحریک کے چوتھے مرحلہ کی بنیاد رکھی۔
حُر تحریک بنیادی طور پر کسان تحریک تھی اور اس کے صف اول کے مجاھدوں اور غازیوں
میں مٹھو خاصخیلی ' ﷲ بچایو خاصخیلی عرف پٹھان ' فقیر بخش موچی ' میرو نظامانی '
گلو وسان عرف گلو گورنمنٹ ' شیخیو راجڑ اور رحیم ھنگورو جیسے سینکڑوں کسان اور
دھنار سورما شامل تھے۔
20 ویں صدی میں آزادی کے لیے جنگ کی کمانڈ صرف تین حریت پسند رھنمائوں نے کی تھی
اور انگریزوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ ایک بنگال سے سوباش چندر بوش ' دوسرا پنجاب
سے بھگت سنگھ ' جب کے تیسرا سندھ سے شھید سورھیہ بادشاھ پیر سید صبغت اللہ شاہ
ثانی پیر پاگارہ تھے۔
پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی پیر پاگارہ کے نظریات و خیالات سے انگریز حکومت کو یہ
خدشہ تھا کہ وہ بغاوت کی طرف مائل ھیں۔ اس لیے 1930ء میں پیر پاگارہ پر مقدمہ دائر
کرکے 8 سال کی سزا دیکر ھندوستان کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ پیر پاگارہ 1936ء
میں رھا ھو کر آئے تو سندھ میں مذھبی نظریات کی حامل مسلم لیگ قائم ھوچکی تھی۔
1939ء میں سکھر میں مسجد منزل گاہ کے نام پر مسلم لیگ نے ھندو ۔ مسلم فساد برپا
کئے جس میں کوئی دو ھزار کے قریب لوگ قتل ھوئے۔ اس سانحہ کے دوران پیر پاگارا نے
ھندو اقلیت کو ھر طرح سے تحفظ دیا۔
پیر
سید صبغت اللہ شاہ ثانی کی قیادت میں حُروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم
جہاد بلند کیا اور سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک چین سے نہ
بیٹھنے دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران حُروں نے بغاوت کی تو انگریزوں نے سر دھڑ کی
بازی لگا کر حُروں کو پسپا کرنے کی کوشش کی۔ مگر حُر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اپنی دھرتی
کی بقا کی خاطر پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی نے بھرپور جوانی میں اپنے آپ کو قرباں
کردیا۔
انگریز سرکار نے بغاوت کرنے اور جنگ کرنے کے الزام میں 1940ء میں پیر پاگارا کو
دوبارہ قید کیا اور سندھ میں مارشال لاء کے نفاذ کے بعد سندھ میں حُر تحریک کے
ھزاروں حُر سپاھیوں کو مارنے کے بعد حُر تحریک کے چیف رھنما پیر سید صبغت اللہ شاہ
ثانی سورھیہ بادشاھ پیر پاگارہ کو 20 مارچ 1943 کو حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی
دیکر لاش کو کسی جزیرے میں دفنا دیا تھا۔
پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی کے فرزند شاہ مردان شاہ دوم کو تعلیم و تربیت کے لیے
انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ شاہ مردان شاہ دوم پیر پاگاڑہ قیام پاکستان کے تین سال بعد
وطن واپس آئے اور اپنے والد کی مسند پر بیٹھے۔
حُروں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی داد شجاعت دی اور سندھ کے محاذ
پر دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ حُر جماعت وطن کے خلاف ھونے والے کسی بھی جنگی
معرکے کے لیے پاک آرمی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ھے۔
No comments:
Post a Comment