پانچ
ھزار سال پہلے دنیا میں تین تہذیبیں وجود میں آگئی تھیں۔ ان میں سے ایک نیل دریا
کے کنارے مصر میں مصری تہذیب۔ دوسری دجلہ اور فرات دریاؤں کے کنارے عراق میں
میسوپوٹامیہ کی تہذیب۔ تیسری سندھ ' جہلم ' چناب ' راوی ' بیاس ' ستلج ' سرسوتی
دریاؤں کے کنارے وادیء سندھ کی تہذیب۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کو پہلے سپتا
سندھو کہا جاتا رھا اور اب پاکستان کہا جاتا ھے۔ پاکستان کا وجود “نظریہ پاکستان”
کی بنیاد پر ھے۔
چوھدری
رحمت علی گجر ایک مسلمان پنجابی تھے جو پاکستان کی ریاست کے قیام کے ابتدائی محرک
تھے اور “نظریہ پاکستان” کے بانی تھے۔ انہوں نے اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی
نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں بنگال کے
مسلمانوں کے لیے ایک مسلم وطن "بنگستان" کے نام سے تجویز کیا تھا۔
"عثمانستان" کے نام سے ایک مسلم ملک دکن اور یوپی ' سی پی کے مسلمانوں
کے لیے تجویز کیا تھا اور "دینیاس" کے نام سے ایک ملک جنوبی ایشیا کے
مختلف مذاھب کے لوگوں کے لیے تجویز کیا تھا۔ جبکہ اپنے پمفلٹ بعنوان "ابھی یا
کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ
"پاکستان" بھارت کے پانچ شمال مغربی یونٹس مطلب: پنجاب (بغیر تقسیم کے)
' افغانیہ (صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے تجویز
کیا تھا"۔
جہاں
تک “دو قومی نظریہ” کی بات ھے تو؛ برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ
' بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا
جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو
ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے
والے مسلمان اپنے صوبوں میں اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا کے آزاد ھونے کی
صورت میں جمہوریت کو اپنے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ آزاد انڈیا میں خود کو نقصان سے
بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور
برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے
مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل سینٹرل
برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تھی۔
اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان ھیں اور
ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 800 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے
کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے
عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔
سینٹرل
برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں
کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک تشکیل دینے کی حمایت
کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض سینٹرل برٹش
انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے اتحاد کو مظبوط
اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع کیا کہ برٹش انڈیا
کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی
ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک
مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ تھا۔ ایک زبان انکی
اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک سیاسی مفاد انکا
نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو برتری حاصل
ھونا تھا۔
ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود برٹش انڈیا کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر
والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ
تھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی
اپنی منفرد قومی شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے تمام
مسلم حلقوں میں “دو قومی نظریہ” کو پذیرائی حاصل نہ ھوسکی۔ مثال کے طور پر 1937 کے
انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا لیکن آل انڈیا مسلم
لیگ کو تمام مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1937 کے
انتخابات میں صرف 4.6 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے لئے ووٹ دیا اور مسلم لیگ نے
پنجاب میں 84 نشستوں میں سے صرف 2 ' سندھ میں مسلمانوں کے لئے محفوظ 33 نشستوں میں
سے 3 ' بنگال کی 117 نشستوں میں سے 39 اور شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے
اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) میں کوئی بھی نشست حاصل نہیں کی۔ اس طرح
پاکستان کے قیام سے صرف ایک دھائی پہلے برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے تقریبا متفقہ
طور پر “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک
کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔
سال
1940 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاھور میں اپنا سالانہ اجلاس منقعد کیا۔ جہاں
نظریات کا اختلاف واضح طور پر نظر آتا تھا۔ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے
مسلمانوں نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم
ملک بنانے کے حامیوں کا ایک گروپ بنایا۔ جبکہ مسلم اکثریت والے صوبوں بنگال '
پنجاب ' سندھ ' سرحد اور بلوچستان کے رھنماؤں نے لسانی ' ثقافتی اور نسلی تحفظ کی
حمایت کی بنیاد پر دوسرے گروپ کی تشکیل کی اور 1937 کے انتخابات کے نتائج سے آگاہ
کیا۔ مسلم اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے سالانہ اجلاس میں اپنی بالا دستی رکھی
اور اپنی خود مختاری کی خواھشات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔
اجلاس
میں محمد علی جناح نے اور نہ ھی مسلم لیگ کے کسی دوسرے رھنما نے “دو قومی نظریہ”
کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کی قراداد پیش کی۔ کیونکہ
سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو 1937 کے انتخابات میں “دو قومی
نظریہ” کی بنیاد پر شکست کی تازہ یادوں کی وجہ سے مسلم اکثریت کے صوبوں کی قیادت سے
ایسی مانگ کے لئے حمایت کا یقین نہیں تھا۔ اس کے بجائے مسلم اکثریت والے صوبے
بنگال کے بنگالی قوم پرست اے ۔ کے فضل الحق کی طرف سے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے
لیے ایک مسلم ریاست کے الفاظ کو نظر انداز کرتے ھوئے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے
مستقبل کے لئے ایک قرارداد پیش کی کہ؛
جغرافیائی
طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ
جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال
مغربی اور مشرقی حصے ' ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح
تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ھوں گی۔ ان اکائیوں میں موجود
خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی
' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات
یقینی بنائے جائیں گے اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین
میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور
دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے
جائیں گے۔ مسلم لیگ نے رسمی طور پر 23 مارچ 1940 کو لاھور میں اس قرارداد کو
اپنایا۔ مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی
رھنما چوھدری خلیق الزماں ' پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ' سرحد سے سردار اورنگ
زیب 'سندھ سے سر عبداللہ ھارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ
کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاھور کو جماعت کے
آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ھوئی۔ لیکن
اُس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندھی نہیں کی گئی تھی ' جن پر مشتمل علیحدہ مسلم
مملکتوں کا مطالبہ کیا جارھا تھا۔ پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی
نشاندھی 7 اپریل سن 1946 کو دلی کے تین روزہ کنونشن میں کی گئی۔ جس میں مرکزی اور
صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے
آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک
قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین
چوھدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر
پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندھی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں
بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ' سرحد ' سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات
ھے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ حالانکہ شمال مغرب میں مسلم
اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ھوا تھا۔ یہ بات بے حد اھم ھے کہ دلی
کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا گیا تھا۔ جو قراردادِ
لاھور میں بہت واضح طور پر تھا۔ اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش
کیا گیا تھا۔
غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ھے کہ مولوی فضل الحق کی طرف سے 23 مارچ کو پیش
کردہ قراردادِ لاھور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر
سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں پنجاب میں مسلم لیگ
کی اتحادی جماعت تھی اور سر سکندر حیات خان یونینسٹ پارٹی کے صدر تھے۔ سر سکندر
حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر
عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ
کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں بر صغیر
میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔ سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض
تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان
کا "پاکستان کا نظریہ" جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ھندوستان میں ایک طرف ھندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی
بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ھیں اور وہ ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں
گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔ سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942 میں انتقال کر گئے '
یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ھوئے حصار سے نجات مل گئی۔
سن 1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شھید سہروردی نے پیش
کی اور یو پی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔
قراردادِ لاھور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ھوئے کیونکہ
انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔ دلی کنونشن میں بنگال کے رھنما
ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد
"لاھور کی قرارداد" سے بالکل مختلف ھے۔ جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ھے-
ان کا کہنا تھا کہ "قراردادِ لاھور" میں واضح طور پرشمال مغربی اور
مشرقی حصے میں مسلمانوں کے لیے دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی
کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔
ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات
میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے
قیام کی بات ھورھی ھے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا
ھے۔ البتہ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی
حتمی ثالث ھوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ھوگا۔
لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت
جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور ھورھا تھا ' بر صغیر میں مسلمانوں کی دو
آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔ 25 سال کی سیاسی اتھل پتھل و
کشمکش اور سن 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباھی کے بعد البتہ برصغیر میں
مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ "قراردادِ لاھور"
کی صورت میں آج بھی محفوظ ھے۔
No comments:
Post a Comment