Sunday, 8 December 2019

بلوچستان اور بلوچستان کی پسماندگی کے بارے میں جانیں۔

کیا آپ جانتے ھیں کہ؛ پاکستان کی کل قومی آمدن میں بلحاظ آبادی سب سے زیادہ حصہ بلوچستان کو ملتا ھے؟

بلوچستان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا محض 6 فیصد ھے لیکن مرکزی حکومت کی طرف سے صوبوں کو دیے جانے والے فنڈز (این ایف سی ایوارڈ) میں بلوچستان کا حصہ 8.4 فیصد ھے۔ جبکہ دوسری طرف ٹیکسز کا بوجھ پاکستان میں سب سے کم بلوچستان پر ڈالا جاتا ھے جو ملک کی کل محصولات کا صرف 3 فیصد ادا کرتا ھے۔

ایک دلچسپ بات اور کہ؛ صوبوں کو دیئے جانے والے فنڈز میں سے بلحاظ آبادی سب سے کم حصہ پنجاب کو ملتا ھے۔ یہ اعداد و شمار ملاحظہ کیجیے؛

پنجاب کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 1 کروڑ 52 لاکھ روپے۔

سندھ کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 1 کروڑ 58 لاکھ روپے۔

کے پی کے کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 1 کروڑ 87 لاکھ روپے۔

جبکہ بلوچستان کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 2 کروڑ 82 لاکھ روپے ادا کیے جاتے ھیں یعنی پنجاب کے مقابلے میں بلوچستان کے لیے ھر شخص کے لیے دگنی رقم فراھم کی جاتی ھے۔

پنجاب کی کل آبادی ملک کا 60 فیصد ھے جہاں سے پاکستان کی کل محصولات کا تقریباً 60 فیصد ھی وصول کیا جاتا ھے۔ لیکن پنجاب کا حصہ مرکز کی طرف سے دیے جانے والے فنڈز میں محض 50 فیصد ھے۔

پاک فوج میں بلحاظ آبادی بھرتیوں کا سب سے بڑا کوٹہ بلوچستان کے لیے رکھا گیا ھے اور آفیسر بھرتی کرنے کے لیے دیگر تینوں صوبوں کے مقابلے میں خصوصی طور پر سب سے نرم شرائط بھی بلوچستان کے لیے ھیں۔
یہی وجہ ھے کہ صرف ڈیرہ بگٹی جیسی چھوٹی سی آبادی سے پچھلے چند سال میں سو کے قریب آفیسرز پاک فوج میں آئے۔

بلوچستان میں زرعی پیدوار نہ ھونے کے برابر ہے۔ لہذا وھاں کی معدنیات اور ان سے جڑے معاملات پر ایک نظر ڈالتے ھیں۔

بلوچستان پاکستان کی گیس کی کل ضروریات کا محض 6 فیصد پیدا کرتا ھے لیکن 7 فیصد استعمال کرتا ھے۔ بلوچستان اپنی گیس کی زائد ضرورت صوبہ سندھ سے پوری کرتا ھے جو کہ اس وقت پاکستان کی گیس کی 70 فیصد ضروریات پوری کر رھا ھے۔ (کسی دور میں بلوچستان ملکی گیس کی کل ضروریات کا 35 فیصد پوری کرتا تھا۔ بلکہ بہت شروع میں تقریباً 85 فیصد تھا۔ جب پاکستان میں گیس صرف چند شہروں تک محدود تھی۔ لیکن اسکا فائدہ بلوچستان کے چند سرداروں نے ھی اٹھایا۔ جن میں سب سے بڑا نام نواب اکبر بگٹی کا تھا۔ جس نے گیس کے لیے ملنے والی اربوں روپے کی رائیلٹی سے بیک وقت سینکڑوں لیموزین اور لینڈ کروزر گاڑیاں اور پرائیویٹ جہاز خریدے تھے۔ بلکہ وھاں رھنے والے 80 ھزار سے زائد بگٹی قبائل کو علاقہ بدر بھی کر دیا تھا تاکہ رائیلٹی اکیلے ھضم کر سکے)

بلوچستان پاکستان کی تیل کی کل پیدوار کا 6 فیصد استعمال کرتا ھے لیکن پیدا تقریباً 1 فیصد کے لگ بھگ کرتا ھے۔ بلوچستان اپنی تیل کی ضروریات ایرانی تیل خرید کر یا صوبہ کے پی کے سے پوری کرتا ھے۔ (بلوچستان میں تیل تلاش کرنے میں رکاوٹ اس کے کچھ نام نہاد قوم پرست لیڈرز ھیں۔ جنہیں اپنے خود غرضانہ مقاصد کے سوا بلوچستان کے لوگوں سے اور پاکستان سے غرض نہیں ھے۔

بلوچستان میں سونے اور کاپر کے کافی بڑے ذخائر بھی دریافت ھوئے ھیں۔ جن پر صوبہ بلوچستان کو ھی کام کرنے کا حق دیا گیا۔ بلوچستان کے کرتا دھرتاوؤں نے کچھ غیر ملکی کمپنیوں سے عجیب و غریب معاھدات کیے جس کے بعد اس سونے اور کاپر میں سے ایک دھیلہ بھی بلوچستان کے عوام کو نہ ملا۔ اس لیے بلوچستان سے ھی تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جج افتخار چودھری نے ان منصوبوں پر کام رکوا دیا۔ جس کے بدلے پاکستان پر چھ ارب ڈالر جرمانہ لگا جو قومی خزانے سے ادا کیا جائیگا۔

بلوچستان کی اھم ترین معدنیات میں کوئلہ ' کرمائیٹ اور بیرائٹ بھی شامل ھے۔ ان تینوں میں سے کسی پر بھی پاکستان کی مرکزی یا بلوچستان کی صوبائی حکومت کام نہیں کر رھی۔ بلکہ بلوچستان کے مقامی لوگ خود کان کنی کر کے نہ صرف ان معدنیات کو دوسرے صوبوں میں فروخت کرتے ھیں بلکہ پاکستان سے باھر ایکسپورٹ بھی کرتے ھیں۔

بلوچستان کے لیے پاکستان کا سب سے بڑا تحفہ گوادر ھے۔ جو حکومت پاکستان نے 1958ء میں سلطنت عمان سے خریدا اور بعد میں اس کو صوبہ بلوچستان کا حصہ بنا دیا۔ یہ ایک حقیقت ھے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی کوشش سے گوادر اور اس کے لیے بننے والی اقتصادی راھداری کی بدولت پاکستان کا جو صوبہ سب سے زیادہ فیض یاب ھوگا وہ بلوچستان ھی ھے۔

سوال یہ ھے کہ؛ بلوچستان دوسرے صوبوں کی نسبت پسماندہ کیوں ھے؟ اسکی نہایت سادہ سی وجوھات ھیں۔

یہ قدرتی بات ھے کہ کم آبادی اور کم پانی والے علاقے باقی علاقوں کی نسبت تھوڑے سے پسماندہ رھتے ھیں۔

بلوچستان کی پسماندگی کا یہ معاملہ بھی پاکستان بننے سے پہلے کا ھے۔ تاریخ کی کتابوں میں ایک صحابی کا ذکر آتا ھے جو یہاں اسلام کی دعوت لایا تو 1400 سال پہلے بھی اس صحابی نے اپنی کارگزاری میں اس علاقے کی پسماندگی کا ذکر کیا تھا۔

پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی یہی حال ھے۔ جہاں پانی اور آبادی کم ھے۔ اسکی ایک مثال تھر اور تھرپاکر ھے۔ جہاں اس وقت بھی قحط کی سی کفییت ھے۔ صوبہ پنجاب کے لوگ بھوکوں اس لیے نہیں مرتے کہ اللہ نے اس صوبے کو 5 دریاؤں اور زرخیز زمین سے نوازا ھے اور یہاں کا کسان سارا سال اپنی زمینیوں کا سینہ چیر کر فصلیں اگاتا رھتا ھے۔

بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ وہ لوگ بھی ھیں جو دن رات بلوچستان کے حقوق کا رونا روتے ھیں لیکن خود بلوچستان کو لوٹنے سے باز نہیں آتے۔ نواب اکبر بگٹی کا ذکر اوپر ھوچکا ھے۔ مزید مثالیں یہ ھیں کہ؛

بلوچستان کی پچھلی حکومت میں کل 55 اراکین اسمبلی تھے جو سارے کے سارے وزیر تھے۔ ان میں سے ایک صاحب کو کوئی وزارت نہیں ملی تو اسکو آئی ٹی کا وزیر بنا دیا گیا۔ موصوف کی ٹائروں کی دکان تھی اور ان کو اپنی وزارت کے 5 سال پورے کرنے کے بعد بھی کمپیوٹر آن کرنا نہیں آیا۔

ایک محمود اچکزئی صاحب ھیں۔ جس نے پورا بلوچستان اپنے خاندان میں بانٹ رکھا ھے۔ ابھی کچھ دن پہلے وزیرخزانہ کے سیکٹری کے گھر سے 63 کروڑ روپے برآمد ھوئے اور انکی کراچی میں 2 ارب روپے کی جائداد کا انکشاف ھوا۔ اگر سیکٹری کا یہ حال ھے تو وزیروں کا کیا حال ھوگا؟؟ لیکن اس کے باوجود وہ موصوف عدالت جاتے ھیں تو لوگ ان کے ھاتھ چومتے ھیں۔ (شائد اس کے ھاتھ کی صفائی کی داد دینے کے لیے)

بلوچستان کو لوٹنے والے ان ساروں میں سے کوئی ایک بھی پنجابی ' سندھی یا صوبہ کے پی کے کا نہیں ھے۔

درحقیقت بلوچستان پاکستان کا سب سے لاڈلا صوبہ ھے۔ لیکن بلوچستان کو ڈسنے والے سانپ خود انہی کی آستینوں میں ھیں۔ جب تک ان سانپوں سے بلوچستان کی عوام اپنی جان نہیں چھڑائیں گے۔ تب تک ان کے حالات بہتر نہیں ہونگے۔ (اللہ کا شکر ھے کہ اب وہ کم از کم ان سانپوں کو پہچاننے لگے ھیں)

حقیقی معنوں میں بلوچستان کا حق اگر کوئی کھا رھا ھے تو وہ وھاں موجود افغانی ھیں۔ جو دھیرے دھیرے بلوچستان کے ھر کاروبار حتی کہ سرکاریوں نوکریوں پر بھی قبضہ کر رھے ھیں۔ کان کنی کے زیادہ تر کام پر بھی انہی کا قبضہ ھوگیا ھے۔ اسی کی نشاندھی سردار اختر مینگل نے بھی کی تھی۔

اس کے علاعہ کیا کوئی بتا سکتا ھے کہ؛ بلوچستان کے کون سے حقوق کون کھا رھا ھے اور کیسے کھا رھا ھے؟؟

No comments:

Post a Comment