Monday, 23 December 2019

سورھیہ بادشاہ ' سید صبغت اللہ شاہ راشدی ' پیر پگارا

سید صبغت اللہ شاہ راشدی 1909ء میں پیدا ھوئے تھے۔ 12 برس کی عمر میں آپ گدی نشین ھوئے اور حروں کے چھٹے پیر پگارا منتخب ھوئے۔ سکھر شہر میں دریائے سندھ پر بنے ”بیراج“ کو بائیں طرف کے پل سے عبور کریں تو ایک بہت بڑی نہر کے کنارے کنارے خوبصورت سڑک "پیر جو گوٹھ" جاتی ھے۔ جو پیر پگارا کا آبائی علاقہ ھے۔ "پیر جو گوٹھ" میں پیر پگارا کے گھوڑوں کا بہت بڑا فارم موجود ھوا کرتا تھا۔ اب وہ قیمتی گھوڑے کراچی منتقل کردیے گئے ھیں۔ اسی علاقہ میں پیر پگارا کا ایک عالیشان محل بھی موجود ھے۔

سندھ کے علاقے سانگھڑ کے ”مکھی جنگل“ سے انگریزوں سے مقابلے کے لیے ”حُر تحریک“ کی بنیاد رکھی گئی۔ حُر تحریک کو برطانوی حکومت نے بغاوت کا نام دے کر پیر پگارا کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کرلیا۔ اس مقدمے میں پیر پگارا کی پیروی قائد اعظم نے کی۔ مگر انگریزوں نے پیر پگارا کو 10 سال قید کی سزا سنادی۔ پیر پگارا کو 26 مارچ 1930ء کو گڑنگ بنگلو سے گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن اس کے بعد 15 ستمبر 1930ء کو پیر پگارا کے خلاف مزید جھوٹے کیس رجسٹرڈ کر کے پیر پگارا کو بمبئی پریزیڈینسی سے ملحق رتناگری جیل منتقل کر دیا گیا۔

انگریز حکومت کے پیر پگارا کو جیل توڑ کر آزاد کروا لینے کے خدشے کی وجہ سے مختصر عرصے بعد جیلیں تبدیل کی جاتی رھیں۔ رتناگری سے راج شاھی جیل مدنا پور منتقل کیا گیا۔ وھاں سے علی پور ڈھاکہ رکھا گیا۔ پیر پگارا مختلف جیلوں میں رہ کر ان علاقوں کے حریت رھنماﺅں سے رابطے میں آچکے تھے۔ ان کے ولولے اور منصوبے مزید قوی و وسیع ھوتے چلے گئے۔

انگریز حکومت نے 1936ء میں پیر پگارا کو ناگپور جیل سے رھا کیا تو پیر پگارا جیسلمیر کے راستے سکھر پہنچے۔ پورا سندھ پیر پگارا کے استقبال کو اُمنڈ آیا۔ پیر پگارا نے پیر جوگوٹھ پہنچتے ھی مجاھدین کی عام لام بندی کا اعلان کر دیا۔ پیر پگارا نے رھائی کے بعد سانگھڑ کے قریب گڑنگ کے مقام پر اپنی تحریک کا آغاز کیا اور کفن یا وطن کا نعرہ بلند کرتے ھوئے میدان میں اتر آئے۔

اب انگریز کے لیے پیر پگارا کو آزاد چھوڑنا مشکل ھی نہیں محال ھو چکا تھا۔ ایسے میں سرکار برطانیہ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور پیر پگارا کو کراچی سے 24 اکتوبر 1941ء کو گرفتار کر کے سیونی میں ایک بار پھر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ پیر سید صبغت اللہ شاہ پیر صاحب پگارو کی گرفتاری کے باوجود انگریز کا سندھ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ھو سکا۔ انگریز افسر شاھی اور مخبروں کا جینا حرام ھوگیا۔ حُر مجاھدین اپنے عظیم مرشد کی گرفتاری پر بپھرے ھوئے شیر کی مانند ھر سمت تباھی پھیلاتے نظر آرھے تھے۔ انگریز نے ان کے خلاف ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ سندھ میں مارشل لاء لگا کر حر ایکٹ نافذ کر دیا۔ لوگوں کی بستیوں کی بستیاں جلا ڈالیں اور تمام حُر جماعت کو حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔

انگریز پیر پگارا کو مزاحمت ترک کرنے پر سکھر سے نوابشاہ تک کی ریاست دینے کی پیشکش کر چکا تھا۔ مگر حضرت سورھیہ بادشاہ فرماتے ھیں کہ؛ جب مجھ سے سودے بازی کی بات کرتے ھیں تو محسوس ھوتا ھے کہ مجھ میں سے حسینیت خارج ھو رھی ھے۔ لہٰذا آپ نے انگریز کی تمام پیشکشیں مسترد کرکے تختہ دار پر چڑھنا اعزاز تصور کیا۔

پیر پگارا کو جوانی کی عُروج میں 20 مارچ 1943ء کو حیدر آباد جیل میں سولی پر لٹکا کر شہید کرکے کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا گیا۔ پیر پگارا کے دونوں فرزندان پیر پگارا سید سکندر شاہ المعروف شاہ مردان شاہ اور سید نادر شاہ کو علیگڑھ منتقل کر دیا۔ پیر پگارا کے ارادت مند وھاں بھی پہنچ گئے تو انگریز نے تنگ آ کر دونوں شہزادوں کو برطانیہ بھیج دیا۔ قیام پاکستان کے بعد پیر پگارا کی گدی بحال ھوئی۔ شہید سورھیہ بادشاہ کے فرزند اکبر سید سکندر شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی نے 4 فروری 1952 کو مسند نشین ھو کر دستار پگارو حاصل کی۔

قیام پاکستان کے بعد برطانوی حکام تمام ریکارڈ پاکستان حکومت کے سپرد کرکے چلے گئے۔ چند روز قبل یہ بات سامنے آئی ھے کہ سورھیہ بادشاہ کی پھانسی کا ریکارڈ جیل انتظامیہ کے پاس موجود نہیں ھے۔ جیل میں سورھیہ بادشاہ کی پھانسی کی تیاریوں کا ریکارڈ تو ھے لیکن پھانسی کا ریکارڈ موجود نہیں ھے۔

سال 2017 میں برطانیہ کی حکومت برصغیر سے متعلق اپنی چند پرانی رپورٹیں منظر عام پر لائی ھے۔ جس میں سے ایک سورھیہ بادشاہ کے متعلق بھی تھی کہ انہیں حیدرآباد جیل میں پھانسی دینے کے بعد استولا جزیرہ میں دفن کردیا گیا تھا۔ جزیرہ استولا بلوچستان کے ساحلی شھر پسنی سے چھ گھنٹے کی مسافت پر گوادر اور پسنی کے سمندر میں موجود ھے۔ یہ ایک چھوٹی سی بنجر پہاڑی پر مشتمل بے آباد جزیرہ ھے۔ پسنی و گوادر کے مچھیرے بعض دفعہ اس جزیرے پر رات گزارنے آتے ھیں۔ اس جزیرے پر ایک گمنام قبر ھے۔ جس پر مزار بنا ھوا ھے اور ساتھ میں ایک مسجد ھے۔ قبر کے بارے مشہور ھے کہ یہاں حضرت خضر ھیں اور کچھ کے بقول یہاں بہت بڑے بزرگ دفن ھیں۔ غالب امکان یہی ھے کہ استولا پر گمنام قبر سوریا بادشاہ پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ شہید ھی کی ھے۔

No comments:

Post a Comment