21
مارچ 1948 کو "رمنا ریس کورس گراونڈ ڈھاکہ" میں جب ٹھٹھ میں پیدا ھونے
والے جناح پونجا کے بیٹے اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل "سندھی محمد
علی" نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم "اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر
لیاقت علی خان" کو اپنے دائیں طرف کھڑا کرکے انگریزی میں بنگالیوں سے خطاب
کرتے ھوئے کہا کہ؛
پاکستان
کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ھوگی۔ اردو کو قومی زبان تسلیم نہ کرنے والا
پاکستان کا غدار ھوگا۔ تو "بنگالی اسٹوڈنٹ لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن" (جو
بعد میں بنگلہ دیش کا سربراہ مملکت بنا) نے بہت ھنگامہ کھڑا کیا۔
عملی
طور پر بنگلہ دیش اسی دن بن گیا تھا۔ محض اعلان چوبیس سال بعد پاکستان کے سویلین
مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پاکستان کے صدر "لاڑکانہ کے سندھی ذوالفقار علی
بھٹو" نے کیا۔ پاکستان کی 56% اکثریتی آبادی بنگالی پاکستان کی اقلیتی آبادی
سندھی ' مھاجر ' پٹھان ' بلوچ سے جغرافیائی طور پر الگ ھوگئی۔
یہ
الگ بات ھے کہ؛ اب پاکستان کی 60% اکثریتی آبادی پنجابی پاکستان کی اقلیتی آبادی
سندھی ' مھاجر ' پٹھان ' بلوچ سے ذھنی طور پر الگ ھو چکی ھے۔
جبکہ
پاکستان کی بقیہ 40% آبادی میں سے ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی '
کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی حیران اور پریشان ھوکر سندھی '
مھاجر ' پٹھان ' بلوچ کی حرکتیں دیکھ رھی ھے۔
نوٹ :- پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی اور دوسری بڑی
آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پاکستان کا گورنر جنرل سندھی جناح پونجا کے بیٹے محمد
علی کے بجائے بنگالی اور پاکستان کا وزیر اعظم اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر
لیاقت علی خان کے بجائے پنجابی بنا دیا جاتا۔ جبکہ مشرقی پاکستان کی قومی زبان
بنگالی اور مغربی پاکستان کی قومی زبان پنجابی کردی جاتی تو؛
نہ پاکستان کی 56% اکثریتی آبادی بنگالی پاکستان کی اقلیتی آبادی سندھی ' مھاجر '
پٹھان ' بلوچ سے جغرافیائی طور پر الگ ھوتی۔
نہ پاکستان کی 60% اکثریتی آبادی پنجابی پاکستان کی اقلیتی آبادی سندھی ' مھاجر '
پٹھان ' بلوچ سے ذھنی طور پر الگ ھوتی۔
نہ
پاکستان کی بقیہ 40% آبادی میں سے ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی '
کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی حیران اور پریشان ھوکر سندھی '
مھاجر ' پٹھان ' بلوچ کی حرکتیں دیکھ رھی ھوتی۔
No comments:
Post a Comment