پاکستان
کے قیام کے بعد نان ایگریڈ ایریا کے جن لوگوں کو کلیم پر جائیدادیں دی گئیں۔ اگر
وہ حکومت ضبط کرکے نیلام کردے تو کراچی میں امن و امان قائم ھوجائے اور پاکستان کی
سماجی ' سیاسی ' معاشی اور اقتصادی حالت درست ھونا شروع ھوجائے۔ نان ایگریڈ ایریا
کا مطلب وہ علاقے ھیں جو "انڈین انڈیپینڈنٹ ایکٹ آف برٹش پارلیمنٹ جولائی
1947" میں پاکستان میں شامل نہیں تھے اور 1950 میں ھونے والے لیاقت - نہرو
پیکٹ میں بھی نہیں تھے۔
پنجاب
اور بنگال کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں شامل کیے جانے والے وہ علاقے
جہاں سے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے نقل مکانی ھوئی تھی۔ انہیں ایگریڈ
ایریا کہا جاتا ھے۔ باقی سارے علاقے نان ایگریڈ ایریا کہے جاتے ھیں۔ اسکو اس طرح
بھی سمجھا جاسکتا ھے کہ وہ علاقے جنکے کلیم کی بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے
تصدیق کی تھی وہ ایگریڈ ایریا کہے جاتے ھیں۔ وہ علاقے جنکے کلیم کی بھارت اور
پاکستان کی حکومتوں نے تصدیق نہیں کی تھی وہ نان ایگریڈ ایریا کہے جاتے ھیں۔
ایگریڈ
ایریا ھونے کی وجہ سے ھی بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے کلیموں کی تصدیق کی تھی۔
نان ایگریڈ ایریا ھونے کی وجہ سے ھی بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے کلیموں کی
تصدیق نہیں کی تھی۔ بلکہ کلیم کے دعویدار کو کلیم کی درخواست پر حلفیہ بیان دینے
سے کہ بھارت میں یہ یہ جائیداد تھی اور دو افراد کے حلفیہ بیان کی تصدیق کرنے کے
بعد کلیم کو درست تسلیم کرکے بیان کی گئی جائیداد کے عوض پاکستان میں جائیداد دے
دی گئی تھی۔
پاکستان
کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا۔
اسی طرح یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو چاھیے تھا کہ یوپی اور سی پی
کے علاقوں کو بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتے۔
لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان تو 1947 میں پاکستان کے بن جانے کے
باوجود بھی آرام اور سکون کے ساتھ یوپی ' سی پی میں ھی بیٹھے رھے۔ البتہ پاکستان
کے قیام کے بعد یوپی کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو
بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا اور پاکستان کی
حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر یوپی ' سی پی میں واقع علیگڑہ مسلم
یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے
فارغ التحصیل مسلمان لاکر قابض کروا دیے گئے۔
یو
پی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی 1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ ھونے کے بعد
پاکستان آنا شروع ھوئے تھے اور دھڑا دھڑ کلیم کا دعویٰ کرکے کلیم کی درخواست پر
حلفیہ بیان دیکر کہ میری بھارت میں یہ یہ جائیداد تھی اور دو افراد سے حلفیہ بیان
کی تصدیق کروا کر اور انکے دعووں کی تصدیق کرکے بیان کی گئی جائیداد کے عوض
پاکستان میں جائیداد لیتے رھے۔ جنہوں نے جھوٹے حلف اٹھاکر پاکستان میں جائیدادیں
لی ھوں ' آپ انکی اولادوں کے خون میں حلال کی تاثیر محسوس کریں گے یا حرام کی؟ کیا
وہ حق حلال کا کام کریں گے یا اپنے اباؤ اجداد کی پیروی کریں گے؟
پاکستان
کے بننے کے بعد پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض ھوجانے
والے یوپی ' سی پی میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند اور بریلوی
مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمانوں نے مھاجر کی اصطلاح ایجاد کی اور پاکستان کے قیام
کے لیے پنجاب کو تقسیم کرنے کی وجہ سے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل
مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر
یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لانے کی راہ ھموار کرنا
شروع کردی اور 1950 میں ھونے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر یوپی ' سی پی کے
مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست
' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں میں بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ
کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرکے زمینوں اور جائیدادوں پر بھی قبضے کر نے شروع
کردیے۔
یوپی
' سی پی کے مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش
اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے
لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پاکستانی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے
ھندو و سکھ پنجابیوں اور ھندوستانی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں
کی آبادکاری کے لیے کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے
پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے
بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔
پاکستان
بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابی
اور سکھ پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھوئے
اور پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب
کے مغرب کی طرف منتقل ھوئے لیکن پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے
خاندان تو کیا بلکہ گھر کے ھی چند افراد پاکستان آگئے اور باقی ھندوستان میں ھی
رھے۔ اسی لیے پاکستان پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ابھی تک ھندوستان میں
اپنے خاندان کے افراد سے رابطے رھتے ھیں جسکی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے
اور بھارت کی آلہ کاری کرنے میں انہیں آسانی رھتی ھے۔
دراصل
1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو
بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی
پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی
ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ہوگیا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ یوپی ' سی پی
کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب کراچی پر مکمل طور
پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے اور گذشتہ تین دھائیوں سے ایم کیو ایم کے نام
سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازشیں کر
رھا ھے اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی پشت پناھی اور تعاون
کرتے ھیں تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا آزاد ملک
"جناح پور" بنایا جائے۔
No comments:
Post a Comment