پاکستان
کی اصل قومیں جس طرح پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی بولنے والے ھیں ویسے ھی
بھارت کی اصل قومیں ھندی/اردو ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' کنڑا ' اڑیہ '
بنگالی ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والے ھیں۔ جبکہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے
پنجابی بولنے والے بھی بھارت میں رھتے ھیں۔
پاکستان
کے قیام کی وجہ سے پنجاب کے تقسیم ھونے سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں نے
پنجاب کے مغرب کی طرف سے پنجاب کے مشرق کی طرف نقل مکانی کی جبکہ مسلمان پنجابیوں
نے پنجاب کے مشرق کی طرف سے پنجاب کے مغرب کی طرف نقل مکانی کی ' جسکی وجہ سے 20
لاکھ پنجابی مارے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھوئے۔
پاکستان
کی سرحد کے قریب ھونے ' پنجاب و سندھ میں پہلے سے روابط ھونے اور سندھ و پنجاب سے
ھندؤں کی راجستھان اور گجرات کی طرف نقل مکانی کرنے کی وجہ سے ' بڑی تعداد میں
راجستھانی اور گجراتی مسلمان بھی پاکستان منتقل ھو گئے۔ جبکہ جونا گڑہ ' مناودر
اور حیدرآباد دکن کی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کی وجہ سے کچھ تعداد
میں جونا گڑھی ' مراٹھی ' مدراسی ' دکنی مسلمان بھی پاکستان منتقل ھوگئے۔
ھندوستان
کے صوبوں یونائیٹیڈ پروینس (جسکا نام اب اتر پردیش ھے۔ جو کہ آبادی کے لحاظ سے
پاکستان کی مجموعی آبادی سے بھی بڑا صوبہ ھے۔ اسکی اس وقت آبادی 22 کروڑ ھے اور
وھاں کے رھنے والوں کو یوپی والے کہا جاتا ھے) اور سنٹرل پروینس (وھاں کے رھنے
والوں کو سی پی والے کہا جاتا ھے) کی نہ تو سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی تھی اور نہ
یوپی ' سی پی والوں کے پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے
ساتھ روابط تھے۔
پاکستان
کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا
اسی طرح یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو چاھیے تھا کہ یوپی اور سی پی کے علاقوں کو
بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتے لیکن یوپی ' سی
پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب کا پڑوسی ھونے کا فائدہ اٹھایا اور مشرقی پنجاب سے
مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آڑ لے کر اور مسلم
پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر خود بھی مھاجر بن کر پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے
شہروں ' پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں
' زمینوں ' جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔
یوپی
' سی پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب کے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور
خود بھی مھاجر بن کر پاکستان میں خوب فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ مسلمان پنجابیوں کو
اپنے ھی دیش میں ' مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے کی بنیاد پر
مھاجر نہیں کہا جاسکتا۔ مھاجر وہ ھوتے ھیں جو اپنی زمین سے پناہ کی خاطر کسی اور
قوم کی زمین میں جا بسیں۔
پاکستان
کے قیام کے بعد بھی جو مسلمان یوپی ' سی پی سے آکر پنجاب اور پاکستان کے دیگر
علاقوں میں پناھگزیر ھوگئے انکی قانونی حیثیت پاکستان کے شہری کی نہیں ھے کیونکہ
ابھی تک انہوں نے پاکستان کے "سٹیزن شپ ایکٹ" کے تحت پاکستان کی شہریت
نہیں لی۔ بلکہ ابھی تک انکو اقوام متحدہ کے "مھاجرین کے چارٹر" کے تحت
ھندوستانی مھاجرین قرار نہیں دیا گیا ' اس کا مطلب ھے کہ ھندوستان سے آکر پنجاب
اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں رھائش اختیار کرنے والے یوپی اور سی پی کے لوگ
ابھی تک غیر قانونی مھاجرین ھیں؟
پاکستان
میں راجستھانی ' گجراتی ' جونا گڑھی ' مراٹھی ' مدراسی ' دکنی اپنی اصل شناخت کے
ساتھ رھتے ھیں۔ لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے لیے مھاجر کی
اصطلاح استعمال کی جاتی ھے جو پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شھروں میں رھتے ھیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد ان یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پنجاب
اور سندھ کے تمام بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرلیا تھا جو کہ پنجاب کے شھروں میں پنجابیوں
اور سندھ کے شھروں میں سندھیوں کے دیہی علاقوں سے شھری علاقوں کی طرف نقل مکانی کی
وجہ سے برقرار نہ رہ سکا۔ لیکن کراچی اور حیدرآباد پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے
والے ھندوستانیوں نے ابھی تک نان اردو اسپیکنگ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو بھی
مھاجر بنا کر اپنا کنٹرول قائم رکھا ھوا ھے۔
پاکستان
کی 2017 کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پنجاب میں
آبادی 5,356,464 ' کراچی میں آبادی 5,278,245 اور دیہی سندھ میں آبادی 3,431,356
ھے۔
پنجاب
میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی زیادہ آبادی پنجاب کے بڑے شھروں میں ھے۔
چھوٹے شہروں میں آبادی بہت کم ھے۔ جبکہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ھندوستانی
مھاجروں کی آبادی نہیں ھے۔ بڑوں شھروں میں سے بھی ھندوستانی مھاجروں کی سب سے
زیادہ آبادی لاھور ' فیصل آباد ' گجرانوالہ ' راولپنڈی اور اسلام آباد میں ھے۔
پنجاب
کی 12 کروڑ کی آبادی میں 5,356,464 ھندوستانی مھاجروں کے بکھرے ھونے کی وجہ سے
پنجاب میں ھندوستانی مھاجروں کے لیے پنجابیوں پر سماجی ' معاشی ' انتظامی '
اقتصادی بالادستی قائم کرنا ممکن نہیں ھے۔ لیکن پنجاب کے سب سے بڑے شھروں لاھور '
فیصل آباد ' گجرانوالہ ' راولپنڈی اور اسلام آباد میں رھائش پذیر ھونے کی وجہ سے
پنجابیوں کے پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے
رھتے ھیں۔ پنجاب کی دفتری اور تعلیمی زبان اردو ھونے کا فائدہ اٹھا کر پنجابیوں کو
گنگا جمنا کی زبان اور لکھنو کی ثقافت کی طرف مائل کرنے میں لگے رھتے ھیں۔ جبکہ
پنجاب میں رھتے ھوئے کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی مدد اور حمایت کرتے رھتے
ھیں۔ اس لیے پنجاب میں پنجابیوں کو ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ سماجی ' معاشی '
سیاسی مراسم رکھنے کی ضرورت نہیں ھے۔
پنجاب
میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے چونکہ پنجابیوں کو لسانی اور ثقافتی
نقصان برداشت کرنا پڑتا ھے۔ اس لیے پنجابیوں کے پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت
اختیار کرنے کی راہ میں ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں کا
سدباب کرنے کی کوشش کو بڑھانے کی ضرورت ھے۔ تاکہ پنجاب کی دفتری اور تعلیمی زبان
پنجابی کروائی جاسکے۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو فروغ دیا
جاسکے۔ اس کے علاوہ چونکہ کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے کراچی میں رھنے
والے پنجابیوں پر ظلم و زیادتی کی جاتی ھے۔ اس لیے پنجاب میں رھنے والے ھندوستانی
مھاجروں کی طرف سے کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی مدد اور حمایت کو غیر موثر
کروانے کی ضرورت ھے۔
دیہی
سندھ میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کی آبادی 3,431,356 ھے۔ اس میں سے آدھی
آبادی حیدرآباد میں ھے اور آدھی آبادی دیہی سندھ کے دیگر شھروں میں بکھری ھوئی ھے۔
حیدرآباد کی 25 لاکھ کی آبادی کی حد تک تو ھندوستانی مھاجروں کی حیدرآباد میں
سندھیوں ' پنجابیوں اور پٹھانوں پر سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی بالادستی
قائم ھے۔ لیکن دیہی سندھ کے 3 کروڑ کی آبادی کے علاقوں میں جہاں سندھیوں کے بعد
دوسری بڑی آبادی پنجابی ھیں اور ھندوستانی مھاجر تیسری بڑی آبادی ھیں۔ ھندوستانی
مھاجروں کے بکھرے ھونے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجروں کے لیے نہ صرف سندھیوں بلکہ
پنجابیوں پر بھی سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی بالادستی قائم کرنا ممکن نہیں
ھے۔
1986
میں ایم کیو ایم (مھاجر قومی موومنٹ) کے قیام سے پہلے تک دیہی سندھ میں رھنے والے
ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ دیہی سندھ کے پنجابیوں کے سیاسی روابط زیادہ تھے۔
پنجابی چونکہ دیہات میں زیادہ اور شھروں میں کم تھے۔ اس لیے شھروں میں مقیم ھونے
کی وجہ سے پنجابیوں کی سیاسی قیادت ھندوستانی مھاجر کیا کرتے تھے۔ لیکن ایم کیو
ایم کے قیام کے بعد ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ پنجابیوں کے سیاسی روابط ختم ھوگئے۔
دیہی
سندھ میں پنجابیوں کے 1901 اور 1932 سے آباد ھونے۔ جبکہ زراعت کے پیشے سے منسلک
ھونے کی وجہ سے سندھ کے دیہاتی علاقوں میں بھی مقیم ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کے
سماجی اور معاشی روابط سندھیوں کے ساتھ تھے۔ اس لیے ایم کیو ایم کے قیام کے بعد
ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ پنجابیوں کے سیاسی روابط ختم ھوجانے کی وجہ سے اس وقت
دیہی سندھ کے شھری علاقوں کی حد تک پنجابیوں کے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ مراسم
صرف دعا سلام تک محدود ھیں۔
اس
وقت دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے نہ صرف سندھیوں کے ساتھ سماجی اور معاشی
مراسم ھیں بلکہ سیاسی مراسم بھی ھیں۔ دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابی چونکہ سندھی
زبان میں تعلیم حاصل کرتے ھیں۔ اس لیے سندھی زبان بولتے ھوئے اندازہ لگانا مشکل
ھوتا ھے کہ؛ وہ سندھی ھیں یا پنجابی ھیں۔ جبکہ دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں
نے سندھی ثقافت بھی اختیار کی ھوئی ھے۔ لیکن دیہی سندھ میں رھنے والے ھندوستانی
مھاجروں نے اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور شھروں میں رھنے کی وجہ سے سندھی
زبان اختیار نہیں کی اور نہ سندھی ثقافت اختیار کی ھے۔
اس
وقت دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے سماجی ' معاشی ' سیاسی مفادات سندھیوں کے
ساتھ تو ھیں۔ لیکن دیہی سندھ میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ نہ سماجی
اشتراک ھے۔ نہ معاشی مفاد ھے۔ نہ سیاسی ھم آھنگی ھے۔ اس لیے دیہی سندھ میں رھنے
والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ پنجابیوں کو سماجی ' معاشی ' سیاسی مراسم رکھنے کی
ضرورت نہیں ھے۔ لہذا دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے سماجی ' معاشی ' سیاسی
روابط سندھیوں کے ساتھ ھی رھنے ھیں۔ جوکہ سندھ کے اصل باشندے بھی ھیں۔
کراچی
کی ایک کروڑ 50 لاکھ کی آبادی میں سے ھندوستانی مھاجروں کی آبادی 5,356,464 ھے۔
کراچی میں ھندوستانی مھاجروں کی آدھی آبادی کراچی کے ضلع وسطی اور کورنگی میں ھے۔
جبکہ آدھی آبادی ضلع شرقی ' ضلع غربی ' ضلع جنوبی اور ضلع ملیر میں ھے۔
کراچی
کی 80٪ آبادی اردو بولنے والوں کی نہیں ھے۔ کیونکہ کراچی میں 15٪ پنجابی ' 15٪
پٹھان ' 10٪ سندھی ' 10٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی ' 5٪ بلوچ اور 20٪ ھندکو ' کشمیری
' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی ' افغانی
و دیگر بھی ھیں۔ جنکی زبان اردو نہیں ھے۔ لیکن وہ آپس میں متحد نہیں ھیں۔
کراچی
کے 20٪ اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں نے مھاجر لسانی تشخص کی بنیاد پر ایم کیو
ایم کے پلیٹ فارم پر آپس میں متحد ھوکر کراچی پر قبضہ کیا ھوا ھے اور 15٪ پنجابی '
15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی ' 10٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی ' 5٪ بلوچ اور 20٪ ھندکو '
کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی
' افغانی و دیگر کو اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے یرغمال بنایا ھوا ھے۔
کراچی
کے 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی کی آبادی 20٪ اردو بولنے والے ھندوستانی
مھاجروں سے زیادہ بنتی ھے۔ اگر کراچی کے 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی آپس
میں متحد ھو جائیں تو 10٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی ' 5٪ بلوچ اور 20٪ ھندکو ' کشمیری
' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی '
افغانی و دیگر نے بھی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے قبضہ سے نجات کے لیے
پنجابی ' پٹھان اور سندھی کو ھی سپورٹ کرنا ھے اور کراچی پر اردو بولنے والے
ھندوستانی مھاجروں کے بجائے پنجابی ' پٹھان اور سندھی کا کنٹرول ھو جانا ھے۔