پنجاب
انسانی آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا نہایت ھی قدیم خطہ ھے۔ یہاں پر لاکھوں سال پہلے
قدیم پتھر کے زمانے کا انسان آباد تھا جو جنگلی زندگی بسر کرتا تھا اور پتھر کے
اوزاروں سے شکار کھیلتا تھا۔ پنجاب میں تاریخی دور کا آغاز آریاؤں کی آمد کے بعد
سے ھوا۔
آریاؤں
نے پنجاب میں قیام کے دوران کتاب ’’رگ وید‘‘ تصنیف کی۔ اس میں پنجاب کو ’’سپت
سندھو‘‘ لکھا گیا ھے۔ سپت کے معنی سات اور سندھو کے معنی دریا کے ھیں۔ ان سات
دریاؤں میں سے چھہ دریا ستلج ' بیاس ' راوی ' چناب ' جہلم ' سندھ ھیں۔ جبکہ ساتویں
دریا کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ھے۔ بعض کے خیال میں دریائے سرسوتی ھے۔
جبکہ کچھ دریائے کابل کو شامل کرتے ھیں۔
’’سپت
سندھو‘‘ کے بعد اس کا نام ’’پنج ند‘‘ مشہور ھوا جس کے معنی پانچ ندیاں یا پانچ
دریا ھیں۔ یہ پانچ دریا شندر یعنی ستلج ' ویباس یعنی بیاس ' ایراوتی یعنی راوی '
چندربھاگ یعنی چناب اور وتست یعنی جہلم ھیں۔
پنجاب
"پنجند" کا فارسی ترجمہ ھے۔ "پنجند" کا لفظ مہا بھارت اور ما
بعد لٹریچر میں بھی مستعمل ھے۔ آج کل "پنجند" اس مقام کو کہتے ھیں جہاں
پنجاب کے پانچ دریا ملتے ھیں۔
پنجاب
کے بعض علاقوں کے لیے آریہ وات ' بہلیک یا بہیگ کا نام بھی تاریخ میں استعمال ھوا
ھے۔ بہلیک یا وھیک پنجاب کا ایک قدیم قبیلہ تھا۔ قبیلوں کے اعتبار سے پنجاب کے بعض
مخصوص خطوں کا نام مدر دیس ' مدر قبیلہ کی نسبت سے بھی رھا۔
کورووں
اور پانڈووں کی لڑائیوں کے زمرے میں پنجاب کا نام "پنجال" میں بھی ملتا
ھے۔ یونانیوں کے عہد میں اس کو ’’پنیٹا پوٹامیہ‘‘ بھی کہا جاتا رھا یعنی پانچ
دریاؤں کی سرزمین۔ اس کے بعد اسے ’’ٹکی دیس‘‘ کہا جاتا رھا۔
مشہور
چینی سیاح ھیون سانگ کی ساتویں صدی عیسوی میں ھندوستان آمد کے وقت پنجاب کا یہی
نام رائج تھا۔ بعض سنسکرتی ماخذوں میں پنجاب کے لیے "پنج امبو" کا لفظ
بھی استعمال ھوا ھے۔
"پنج
امبو" کے معنی بھی پانچ پانیوں کی سرزمین ھیں۔ مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں
پہلی بار اس سرزمین کو پنجاب کے نام سے موسوم کیا گیا۔ پنجاب کے مذکورہ تمام قدیم
نام صفحۂ ھستی سے معدوم ھو گئے اور اس کا نیا فارسی نام "پنجاب" ھی آج
تک زندہ وپائندہ ھے۔
پنج
کے معنی پانچ ' آب کے معنی پانی۔ یعنی پانچ پانیوں کی سرزمین۔ عمومی طور پر یہ
پانچ دریا ستلج ' بیاس ' راوی ' چناب اور جہلم لیے جاتے ھیں۔ لیکن بیاس کو دریا کے
بجائے ایک معاون دریا یا نالہ بھی کہا جاتا ھے اور پنجاب کے پانچ دریا ستلج ' راوی
' چناب ' جہلم اور سندھ لیے جاتے ھیں۔ پنجاب کا یہ دریائی نظام دنیا کا پانچواں
عظیم ترین دریائی نظام ھے جو یہاں کے لوگوں کے لیے ایک بیش بہا قدرتی عطیہ ھے۔
خوشحالی
کے سبب جو انسان یہاں پیدا ھوا وہ یہیں کا ھو کر رہ گیا۔ خوشحالی کے چرچے سُن کر
جو غیر ملکی حملہ آور ' تاجر ' مبلغ اور دوسرے لوگ یہاں آئے وہ بھی یہیں کے ھو کے
رہ گئے۔ ان میں دراوڑ ' آریہ ' ایرانی ' چینی ' منگول ' مغل اور عربی شامل ھیں۔ وہ
یہاں کا رھن سہن سیکھ گئے۔ پنجاب میں تہذیب وتمدن کا تنوع ان ھی لوگوں کی وجہ سے
ھے۔
پنجاب
کی سواں تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب خیال کی جاتی ھے۔ وادی سواں کے اردگرد کے
علاقوں میں انسان کثیر تعداد میں رھتے تھے۔ ان کے زیر استعمال پتھر کے اوزار جگہ
جگہ ملے ھیں۔ دریائے سواں دریائے سندھ کا معاون دریا ھے اور راولپنڈی کے قریب بہتا
ھے۔ وادیٔ سواں راولپنڈی ' اٹک ' جہلم ' ھزارہ ' سرگودھا اور خوشاب کے اضلاع پر
مشتمل ھے۔
سواں
صنعت کے پتھریلے اوزاروں میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر ’’ٹوکا‘‘ ھے۔ اس قسم کے اوزار
دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ملے۔ رفتہ رفتہ سواں کی صنعت بھی تبدیل ھوتی گئی۔ پہلے
یہ لوگ غاروں رھتے تھے۔ گھاس پھوس اور شاید تنکوں کے خیمے بھی بنائے۔ جانوروں کا
شکار کرنے کے بعد ان کی کھالیں لباس کے طور پر استعمال کرتے تھے اور خوراک کا
انحصار قدرت پر تھا یعنی نباتات اور حیوانات ھی ان کی خوراک تھی۔
پھر
رفتہ رفتہ وہ انسان زراعت سے واقف ھوتا گیا۔ "جدید حجری" دور میں اس نے
رگڑائی کے ذریعے پتھر کے متفرق حصوں کو جوڑ کر اوزار بنانے سیکھ لیے۔ اس دور میں
لوگ باقاعدہ مکانات بنا کر چھوٹی چھوٹی بستیوں کی شکل میں آباد ھو گئے تھے اور
آبادی کا خاصا بڑا حصہ مکمل خانہ بدوشی چھوڑ کر نیم آباد ھو چکا تھا۔ بارش زیادہ
ھوتی تھی اور وسیع جنگلات موجود تھے۔
جدید
حجری دور کے بعد ’’ابتدائی ھڑپائی‘‘ دور کا آغاز ھوتا ھے۔ اس کا زمانہ چار ھزار
سال ق۔م سے لے کر 2370 سال ق۔م مقرر کیا گیا ھے۔ اس دور میں شہری معاشرے کا آغاز
ھو گیا ۔ انسان خانہ بدوشی کی زندگی ترک کر کے اجتماعی آبادیوں میں رھائش پذیر ھو
گئے تھے۔ انہوں نے پودے اُگانے اور گھروں میں جانور پالنے بھی شروع کر دئیے۔
No comments:
Post a Comment