Tuesday, 25 August 2020

مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ پہلے بھی اتر پردیش کا تھا اور اب بھی ھے۔

پاکستان کو "دو قومی نظریہ" کی بنیاد پر بنایا گیا۔ دراصل انگریزوں نے جب 1937 میں عوامی انتخاب کے ذریعے برٹش انڈیا کے صوبوں میں جمہوری حکومتوں کے قیام کا عمل شروع کیا تو صرف پنجاب ' بنگال اور سندھ میں مسلمان وزیرِ اعظم منتخب ھوئے۔ یوپی ' سی پی میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی جگہ ھندوؤں کے وزیرِ اعظم منتخب ھونے کے بعد یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی۔ اس لیے یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 800 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔

برٹش انڈیا کی سب سے بڑی قوم ھندی - اردو بولے والے ھندوستانی (یوپی ' سی پی والے) تھے۔ دوسری بڑی قوم بنگالی تھے۔ جبکہ پنجابی تیسری ' تیلگو چوتھی ' مراٹھی پانچویں ' تامل چھٹی ' گجراتی ساتویں ' کنڑا آٹھویں ' ملایالم نویں ' اڑیہ دسویں بڑی قوم تھے۔

برٹش انڈیا میں "دو قومی نظریہ" کو بنیاد بنا کر دوسری بڑی قوم بنگالی اور تیسری بڑی قوم پنجابی کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کر کے مسلمان بنگالیوں اور مسلمان پنجابیوں کو پاکستان میں شامل کر کے ایک تو انڈیا کی دوسری اور تیسری بڑی قوم کو تقسیم کر دیا گیا۔

دوسرا برٹش انڈیا کی چوتھی ' پانچویں ' چھٹی ' ساتویں ' آٹھویں ' نویں ' دسویں بڑی قوم کو ھندی بولے والے ھندوستانیوں کی بالادستی میں دے دیا گیا۔

تیسرا اردو بولے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لا کر ' پاکستان کا وزیرِ اعظم اردو بولے والے ھندوستانی کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کی قومی زبان بھی ان گنگا جمنا کلچر والے ھندوستانیوں کی زبان اردو کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کا قومی لباس بھی ان گنگا جمنا کلچر والوں کی شیروانی اور پاجامہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کی حکومت ' دستور ساز اسمبلی ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت ' شہری علاقوں ' تعلیمی اداروں پر ان اردو بولے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم کروا دی گئی۔

پاکستان کو مسلمانوں کا ملک بنا کر پاکستان کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا بتایا گیا تھا۔ جسکے لیے پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر لڑوا کر ' پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروائے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے گئے۔ سندھ میں سے سماٹ سندھی ھندؤں کو نکال دیا گیا اور یوپی ' سی پی سے مسلمانوں کو سندھ لاکر سماٹ سندھی ھندؤں کی جائدادیں یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو دے دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قوموں سے انکے اپنے علاقوں پر انکا اپنا حکمرانی کا حق بھی چھین لیا گیا۔ جسکے لیے 22 اگست 1947 کو جناح صاحب نے سرحد کی منتخب حکومت برخاست کردی۔ 26 اپریل 1948 کو جناح صاحب کی ھدایت کی روشنی میں گورنر ھدایت اللہ نے سندھ میں ایوب کھوڑو کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ھوئے ' بلکہ مزید اضافہ کرتے ھوئے ' لیاقت علی خان نے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو ھی تحلیل کر دیا-

یعنی ملک کے وجود میں آنے کے ڈیڑھ سال کے اندر اندر عوام کے منتخب کردہ جمہوری اداروں اور نمائندوں کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کی قوموں سے انکی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ جسکے لیے 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں جناح صاحب نے انگریزی زبان میں اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہہ دیا کہ سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ھو گی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھونگے۔

جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ سندھ میں سے سماٹ سندھی ھندؤں کو نکال دیا۔ مذھبی نفرت کی جو آگ جناح نے لگائی ' اس میں پنجابی قوم اب تک جل رھی ھے۔ جناح نے برٹش ایجنڈے اور یوپی ' سی پی والوں کے سیاسی مفادات پر کام کر کے ' جو ظلم پنجابی قوم پر کیا ' اس کا انجام اچھا نہیں۔ اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے پاکستان میں اسلام بھی سیاست زدہ ھو چکا ھے اور اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے باوجود سات دھائیوں کے بعد بھی نہ پاکستانی نام کی قوم بن سکی اور نہ بنتی نظر آ رھی ھے۔

چونکہ"دو قومی نظریہ" کو وجود میں لانے والا طبقہ یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ تھی۔ اس لیے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے بنگالی قوم کا ملک بنگلہ دیش بنانے اور 1984 میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی طرف سے مھاجر تشخص اختیار کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے "مھاجر قومی موومنٹ" کے نام سے سیاسی جماعت بنا لینے کے بعد پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں کے لیے "دو قومی نظریہ" کی تو بلکل ھی نہ کوئی افادیت رھتی ھے اور نہ ھی کوئی اھمیت رھتی ھے۔

مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا نہیں تھا۔ مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ اتر پردیش کا تھا اور اب بھی ھے۔ "دو قومی نظریہ" پر ملک بننا تھا تو اتر پردیش کو مسلم اتر پردیش اور غیر مسلم اتر پردیش میں تقسیم کرکے بننا تھا۔ نہ کہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کی زمین پر بننا تھا اور پنجاب کو تقسیم کرکے بننا تھا۔ جو کہ پہلے سے ھی مسلم اکثریتی علاقے تھے۔

بہرحال اس وقت پاکستان میں دو مذھبی قومیں نہیں ھیں۔ کیونکہ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان ھونے کی وجہ سے پاکستان مذھبی نظریہ کی بنیاد پر ایک ھی مذھبی نظریہ والوں کی واضح اکثرت کا ملک ھے۔ جبکہ پاکستان لسانی نظریہ کی بنیاد پر چار قوموں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ بلکہ کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں بھی پاکستان کی شہری ھیں۔

پہلے بھی "دو قومی نظریہ" پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اتر پردیش کا مسئلہ تھا اور اب بھی اتر پردیش کا مسئلہ ھے۔ اس لیے اتر پردیش والے جانیں اور اتر پردیش والوں کا مسئلہ جانے۔ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں اپنے مسئلے پر دھیان دیں۔

چونکہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ نہ کہ اتر پردیش کے "دو قومی نظریہ" پر بحث و مباحثہ کرتے رھنے کی ضرورت ھے۔

قومون کی اپنی زمین ' زبان ' رسم و رواج ھوتے ھیں۔ پاکستان وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کی درجہ بندی وادئ سندھ کی تہذیب کے پنجابی خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے سماٹ خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے ھندکو خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے براھوئی خطے کے طور پر کی جاسکتی ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے اصل باشندے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ھیں۔

پاکستان ' پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ پاکستان کی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کو اردو زبان بولنے پر مجبور کر کے ' گنگا جمنا کی رسمیں اختیار کرنے پر مجبور کر کے ' یوپی ' سی پی کے رواج اختیار کرنے پر مجبور کر کے ' "پاکستانی قوم" کیسے بنایا جا سکتا ھے؟

پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں کے لیے "دو قومی نظریہ" ایک ناقابلِ عمل نظریہ تھا لیکن "دو قومی نظریہ" کی ناکامی کے بعد متبادل کے طور پر اب تک کوئی واضح نظریہ وجود میں نہ لانے کی وجہ سے پاکستان کی عوام پر دولت اور طاقت کے ذریعے حکمرانی کی جا رھی ھے۔ جسکی وجہ سے مالی وسائل رکھنے والے افراد کی طرف سے دولت کی بنیاد پر عوام کو فرقے ' علاقے ' نسل ' ذات اور برادری کی بنیاد پر ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے عوام کا ھجوم اکٹھا کرکے حکومت حاصل کی جاتی ھے۔ حکومت حاصل کرنے کے بعد عوام کو بنیادی سہولیات اور انصاف فراھم کرنے کے بجائے حکومت کی طاقت کی بنیاد پر عوام پر راج کرکے عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کی جا رھی ھیں۔ لیکن دولت اور طاقت کے ذریعے عوام پر راج کرنے والے بھی بے اطمینانی اور بے سکونی میں مبتلا ھیں۔ جبکہ ملک میں بھی بد امنی اور بد حالی بڑھتی جا رھی ھے۔

پاکستان کی عوام کو منظم اور مطمعن رکھنے ' عوام پر راج کرنے والوں کے اطمینان اور سکون جبکہ ملک میں بھی امن اور خوشحالی کے لیے ضروری ھے کہ؛ پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں اور پاکستان میں رھنے والی کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کے لیے "دو قومی" نظریہ جیسے ناکام نظریہ کی جگہ "قابلِ عمل نظریہ" وجود میں لایا جائے۔ تاکہ دولت اور طاقت کی بنیاد پر پاکستان کی عوام پر راج کرنے والوں سے نجات ملے ' عوام کو بنیادی سہولیات اور انصاف فراھم ھوں اور پاکستان میں سے بد امنی اور بد حالی ختم ھو۔

No comments:

Post a Comment