Sunday 9 August 2020

پنجابی ادب کا آغاز اور فروغ

پنجابی ادب کا آغاز بابا فرید الدین گنج شکر (1173ء–1266ء) کے کلام سے ھوتا ھے۔ ان کی وفات کے بعد "گرو گرنتھ صاحب" میں ان کا کلام شائع ھوا۔ بابا فرید الدین کے بعد پنجابی زبان کا دوسرا بڑا شاعر سکھ مت کے بانی اور مہا گرو "گرو نانک" ((1469ء–1539ء) ھیں۔ انہوں نے خود سنسکرت ' عربی فارسی اور جنوبی ایشیا کی دیگر زبانوں کے الفاظ ملا کر پنجابی زبان میں کچھ اشعار لکھے اور یوں گربانی کا بھی آغاز کیا۔ گرونانک کی زندگی اور کارناموں پر مبنی جنم ساکھی بھی پنجابی نثر کے ابتدائی نمونوں میں شمار ھوتے ھیں۔

اگلی صدی میں پنجابی صوفی شاعری کا آغاز ھوا اور شاہ حسین (1538–1599) ' سلطان باھو (1628–1691) ' شاہ شرف (1640–1724 ' علی حیدر (1690–1785) ' صالح محمد صفوری اور بلھے شاہ (1680–1757) جیسے عظیم صوفی شاعر پیدا ھوئے۔ فارسی شاعری میں غزل کو بہت مقبولیت حاصل ھوئی مگر پنجابی شاعروں نے کافی کو اپنایا اور پروان چڑھایا۔

پنجابی شاعری نے ادب کی دیگر اصناف کو بھی متاثر کیا جیسے پنجابی قصے جو فارسی اور قرآنی متون پر مبنی ھوتے ہیں اور عموما رومانی ھوتے ھیں۔ پنجابی قصوں میں وارث شاہ (1706–1798) کا قصہ ھیر رانجھا شاھکار سمجھا جاتا ھے۔ دیگر پنجابی قصوں میں فضل شاہ کا سوھنی ماھیوال ' حافظ برخوردار 1658–1707) کا مرزا صاحباں ' ھاشم شاہ (1735–1843) کا سسی پنوں اور قادریار (1802–1892) کا قصہ پران بھگت شامل ھیں۔

پنجابی شفوی کہانیوں میں جنگ کی کہانیاں بہت مشہور اور روایتی ھیں۔ گرو گوبند سنگھ کی اساطیری کہانی پنجاب میں زبان زد عام و خاص ھے۔ مغلیہ عہد حکومت میں 1739ء میں نادر شاہ کے حملوں کی داستان نجابت نے نادر شاہ دی وار میں بیان کی ھے۔ مغلیہ عہد حکومت میں ھی شاہ محمد (1780–1862) کا جنگ نامہ پنجابی ادب کا حصہ بنا جس میں 1845ء-46ء کے پہلی اینگلو سکھ جنگ کے حالات بیان کئے گیے ھیں۔

برطانوی راج میں پنجابی زبان میں برطانوی ادب داخل ھوا اور جدت پسند نے اپنی جگہ بنا لی۔ اسی بہانے وکٹورین ناول ' ایلیزابیتھ ڈرامہ اور آزادی شاعری پنجابی ادب میں کا حصہ بنے۔ 1835ء میں مسیحی مشنری نے گرمکھی رسم الخط کا پہلا چھاپہ خانہ لدھیانہ میں قائم کیا اور 1854ء میں ریورینڈ جے نیوٹن نے پہلا پنجابی لغت مرتب کیا۔ نانک سنگھ (1897–1971) اور ویر سنگھ نے پہلا پنجابی ناول لکھا ویر سنگھ "سنگھ سبھا تحریک" سے وابستہ تھا مگر اس نے تاریخٰ رومانی ناول بھی لکھے جیسے سندری ' ستونت کور اور بابا نودھ سنگھ۔ نانک سنگھ نے شفوی قصوں کو تحریری شکل دی اور اور کئی ناول لکھے۔ انہوں نے سماجی اصلاحات کو بھی اپنا موضوع بنایا۔

20 ویں صدی میں امرتا پریتم (1919–2005) نے پنجابی ادب کو ایک الگ بلندی عطا کی۔ انہوں نے ناول کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھے۔ وہ شاعرہ بھی تھیں۔ انہوں نے دیگر موضوعات کے ساتھ تقسیم ھند اور نسوانیت کو اپنی تحریروں میں خوب جگہ دی۔ برطانوی عہد میں پنجابی شاعری میں نت نئے تجربے ھوئے۔ پورن سنگھ (1881–1931) اس کے لئے بہت مشہور ھوئے۔ دھنی رام چترک (1876–1957) ' دیوان سنگھ (1897–1944) اور استاد دامن (1911–1984) نے تحریک آزادی ھند سے متاثر ھو کر وطن پرستی اور قوم پرستی کو اپنا موضوع بنایا۔ موھن سنگھ (1905–1978) اور شریف کنجاھی نے پنجابی شاعری میں جدت پسندی کو فروغ دیا۔

مغربی پنجاب (پاکستان) 1947ء میں تقسیم کے بعد پنجاب کا علاقہ بھارت اور پاکستان میں تقسیم ھوگیا۔ مغربی پنجاب میں نجم حسین سید ' فخر زمان اور افضل احسن نے پنجابی ادب میں خوب نام کمایا۔ ان کے علاوہ ادبی تنقید اور شاعری پر بھی خوب کام ھوا اور شفقت تنویر مرزا اور نجم حسین سید مشہور ھوئے۔ زمان اور افضل احسن کو تقسیم کے بعد پنجابی زبان کی شناخت کو دوبارہ متعارف کرنے کا سہرا جاتا ھے۔ پاکسنای اکیڈمی آف لیٹرز نے علی کو ان کے افسانوی مجموعہ کہانی پراگ کے لئے وارث شاہ میموریل اعزاز سے 2005ء میں نوازا۔ 1987ء میں یہی اعزاز منشا یاد کو ان کے مجموعہ واگدہ پانی کے لئے دیا گیا۔ انہیں 1998ء میں ناول توان توان تارا اور 2004ء میں تمغئہ امتیاز سے نوازا گیا۔

دور جدید میں سب سے مقبول مصنف میر تنہا یوسی ھیں جنہیں 4 مرتبہ مسعود کھدر پوش اعزاز سے نوازا جا چکا ھے۔ انہوں نے بھارتی لوگوں کے لئے گرمکھی رسم الخط میں بھی اپنی کتابیں لکھوائی ھیں۔ اردو کے مشہور شاعر منیر نیازی (1928–2006) نے پنجابی میں بھی شاعری کی ھے۔ پیر ھادی عبد المنان نے پنجابی شاعری میں نئے ٹرینڈ کو متعارف کرایا اور انہوں نے اردو شاعری میں طبع آزمائی کی ھے۔

مشرقی پنجاب میں جن ادیبوں اور شاعروں نے نام کمایا ان میں امرتا پریتم (1919–2005) ' جسونت سنگھ راھی (1930–1996) ' شو کمار بٹالوی (1936–1973) ' سرجیت پاتر (1944–) اور پاش (1950–1988) جیسے نام شامل ھیں۔ پریتم کو سنیہے کے لئے 1982ء میں ساھتیہ اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے اس میں عورت کے سماجی حالات کی عکاسی کی ھے۔ 1965ء میں کمار کے شاھکار لونا کے لئے سایتیہ اکیڈمی اعزازملا۔ کچھ شاعروں میں سماج کو اپنا موضوع بنایا جیسے پوش ' پابلو نرودا اور اوکٹاویو پاز وغیرہ۔

No comments:

Post a Comment