پاکستان
کے قائم ھوتے ھی یوپی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خاں پاکستان کا
وزیرِ اعظم بن گیا۔ ٹھٹھ میں پیدا ھونے والا سندھی محمد علی جناح پاکستان کا گورنر
جنرل بن گیا۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ
پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کا فائدہ اٹھاتے ھوئے ھندوستانی مھاجروں ‘ پٹھانوں ‘
بلوچوں نے خود تو قبضہ کرنے اور لوٹ مار کرنے جبکہ الزام پنجابی پر لگا لگا کر پنجابیوں
کی ایسی تسی کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
پنجابیوں
کے اجڑے ' برباد اور بے گھر ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کی طرف سے جواب نہ دے پانے
اور خاموش رھنے کی وجہ سے یہ سلسلہ مسلسل جاری رھا۔ اس لیے سماٹ ' ھندکو ' براھوئی
نے بھی اس پر یقین کرنا شروع کردیا۔ لہٰذا پنجابی " بستہ ب بدمعاش " بن
گیا۔ قبضہ گیری اور لوٹ مار ھندوستانی مھاجر ‘ پٹھان ‘ بلوچ کرتے رھے۔ کھاتے میں
پنجابیوں کے پڑتا رھا۔ بلکہ صحیح معلومات نہ ھونے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر ‘
پٹھان ‘ بلوچ کے ساتھ ساتھ سماٹ ' ھندکو ' براھوئی نے بھی یہ سلسلہ شروع کردیا اور
پنجابی کا " بستہ ب بدمعاش " والا کھاتہ بڑھتا گیا۔
بھارت
کی سرپرستی میں پٹھان غفار خان ' بلوچ خیر بخش مری ' عربی نزاد جی - ایم سید '
اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر الطاف حسین کے " قوم پرستی" کے نام پر
" مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجاب اور
پنجابی قوم پر بے بنیاد الزامات لگا کر ' بے جا تنقید کرکے ' تذلیل کرکے ' توھین
کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے
کی وجہ سے بھی پنجابی کو " بستہ ب بدمعاش " بنانے کے سلسلے نے مزید فروغ
دیا۔
پنجابیوں
کو " بستہ ب بدمعاش " بنانے میں ھندوستانی مھاجروں ‘ پٹھانوں ‘ بلوچوں
نے بھرپور کردار ادا کیا۔ لیکن پٹھان اور بلوچ چونکہ اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی '
سیاست ' صحافت اور بڑے بڑے شھروں پر ویسا غلبہ حاصل نہیں کرپائے جو یو پی ' سی پی
کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پاکستان کے قائم ھوتے ھی حاصل کرلیا تھا۔ اس
لیے پنجابیوں کو " بستہ ب بدمعاش" بنانے میں اھم کردار یو پی ' سی پی کے
اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے گھڑے گئے افسانوں '
طوطا کہانیوں اور الف لیلا کی داستانوں کا رھا۔ انہیں ھی پٹھان اور بلوچ دھراتے
رھتے ھیں اور انکے ھی حوالے دیتے رھتے ھیں۔
پنجابی
چونکہ پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے گھڑے گئے افسانوں ' طوطا کہانیوں اور الف لیلا
کی داستانوں سے بیزار آچکے ھیں۔ اس لیے ھندوستانی مھاجروں کی چرب زبانی سے نجات کے
لیے ھندوستانی مھاجروں کی "کھٹیا کھڑی" کرنے کے بارے میں سوچ رھے ھیں۔
عمر رسیدہ ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' سیاستدانوں اور صحافیوں کو چاھیے کہ؛ نوجوان
ھندوستانی مھاجروں کو اور خاص طور پر پاکستان سے باھر رھنے والے ھندوستانی مھاجروں
کو سمجھائیں کہ؛
1۔
پنجابیوں کے ساتھ "زبان درازی" کرکے ھندوستانی مھاجروں کی "کھٹیا
کھڑی" نہ کروائیں۔
2۔
عمر رسیدہ ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے گھڑے گئے افسانوں '
طوطا کہانیوں اور الف لیلا کی داستانوں میں سے تراشے ھوئے جملے اب "جملہ
بازی" کے لیے استعمال نہ کیا کریں۔
وقت
بدل گیا ھے۔ پنجابیوں کی آنکھوں میں خونخواری نظر آنے لگی ھے۔ یہ تذلیل اور توھین
کے حد سے بڑھ جانے کی نشانی ھے۔ اس لیے ھندوستانی مھاجروں نے اپنی عادات اور حرکات
کی اصلاح نہ کی تو پنجابیوں نے ھندوستانی مھاجروں کی "کھٹیا کھڑی"
کردینی ھے۔
No comments:
Post a Comment