Sunday, 9 August 2020

پنجاب اسمبلی سے "پنجابی لینگویج ایکٹ" کب منظور کروایا جائے گا؟

سپریم کورٹ نے ستمبر 2015 میں آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراَ نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔

آرٹیکل 251 کا متن ھے؛

1۔ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ھے اور آغاز سے 15 سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے کہ اسکو سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

2۔ ذیلی دفعہ (1) کے اندر رھتے ھوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جاسکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کیے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔

3۔ سرکاری زبان کے مرتبہ پر اثر انداز ھوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کرسکتی ھے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ ' تدریس اور سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جاسکے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی تمہید میں کہا ھے کہ؛

" اس سے پہلے بھی ھم آرٹیکل 251 کے مندرجات کی اھمیت کی طرف توجہ دلوا چکے ھیں اور سرکاری امور میں سرکاری زبان اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی اھمیت کو اجاگر کرچکے ھیں"۔

" عدالت نے مشاہدہ کیا ھے کہ حکومتِ پنجاب ' پنجابی زبان کو اس کا مقام دلوانے میں ناکام رھی ھے اور اس زبان کو حصولِ علم کا ذریعہ بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے"۔

" دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضہ ھے کہ ریاست ھر مرد و زن شہری کی زبان کو چاھے وہ قومی ھو یا صوبائی ' ایک قابلِ احترام زبان کا درجہ ضرور دے"۔

" جب ریاست اس بات پر مصر ھوجائے کہ وہ زبانیں جو پاکستان کے شہریوں کی اکثریت بولتی ھے ' اس قابل نہیں ھیں کہ ان میں ریاستی کام انجام پا سکے تو پھر ریاست ان شہریوں کو حقیقی معنوں میں ان کے انسانی وقار سے محروم کر رھی ھے"۔

" اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ انفرادی اور اجتماعی وقار اور تعلیم باھم مربوط ھیں۔ تعلیم ' جو ایک بنیادی حق ھے ' براہ راست زبان سے تعلق رکھتی ھے"۔

یونیسکو جیسا ادارہ بھی ' جو اقوامِ متحدہ کا تعلیمی ' سائنسی اور ثقافتی ادارہ ھے ' اس بات کی تائید کرتا ھے کہ بچے کو اس کی اپنی زبان میں ھی تعلیم دی جانی چاھیئے کیونکہ اپنی زبان ھی وہ زبان ھے جو اپنے گھر اور ماحول سے سیکھتا ھے اور اسی کے زیرِسایہ پروان چڑھتا ھے۔ لیکن حکومت اس اھم معاملے سے بے نیاز دکھائی دیتی ھے"۔

" حکومتوں کی بے عملی اور ناکامی کو سامنے رکھتے ھوئے ' ھمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ھم حکم جاری کریں ؛ آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراَ نافذ کیا جائے"۔

" بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باھمی رابط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں"۔

" اس فیصلے کے اجراع کے بعد ' اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اھلکار آرٹیکل 251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا ' اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ھوگا"۔

" اس فیصلے کی نقل تمام وفاقی اور صوبائی معتمدین کو بھیجی جائے تاکہ وہ آرٹیکل 5 کی روشنی میں آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کے لیے فوری طور پر اقدام اٹھائیں۔ وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس ھدایت پر عمل درآمد کی رپورٹ تین ماہ کے اندر تیار ھوکر عدالت میں پیش کی جائے"۔

سپریم کورٹ کا حکم چونکہ واضح طور پر آرٹیکل 251 کے نفاذ کے لیے ھے ' نہ کہ صرف آرٹیکل 251 (1) کے نفاذ کے لیے۔ اس لیے سپریم کورٹ کا حکم صرف اردو زبان کے انگریزی زبان کی جگہ سرکاری زبان کے طور پر استعمال تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ بلکہ آرٹیکل 251 کے نفاذ کا مطلب "اردو زبان کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور سرکاری زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ ھے"۔ اس لیے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب پاکستان کے وفاقی اداروں میں انگریزی زبان کے بجائے اردو زبان استعمال ھوگی جبکہ پنجاب کے صوبائی اداروں میں پنجابی زبان استعمال ھوگی۔

پنجابی نیشنلسٹ فورم" کا موقف ھے کہ؛ پنجابی قوم اپنے روزمرہ کے سرکاری معاملات پنجابی زبان میں انجام دینا چاھتی ھے۔ جبکہ عام تعلیم پنجابی زبان میں اور اعلی تعلیم انگریزی زبان میں حاصل کرنا چاھتی ھے۔ پنجابیوں کی اپنی زبان پنجابی کے ھوتے ھوئے پنجابی قوم پر اردو زبان کو حکومتی سرپرستی میں مزید مسلط نہ رکھا جائے۔ جب سندھ کی صوبائی زبان سندھی ' خیبر پختونخوا کی صوبائی زبان پشتو ' بلوچستان کی صوبائی زبان بلوچی قرار دی جاچکی ھے تو اب پنجاب اسمبلی میں سے "پنجابی لینگویج ایکٹ" منظور کروا کر پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان پنجابی کردی جائے۔

No comments:

Post a Comment