Monday, 27 July 2020

پنجابی قوم کی تباھی کی بنیاد 1916 میں "معاھدہ لکھنو" کے ذریعے رکھی گئی۔

مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان 1916 میں ھونے والا "معاھدہ لکھنو" جو اردو زبان کی سماجی بالادستی ' یوپی کے مسلمانوں کی سیاسی بالاتری ' پنجابی قوم کی سیاسی اور سماجی تباھی اور پنجاب کی تقسیم کی بنیاد بنا-

غیر منقسم ھندوستان کی سیاسی تاریخ میں "معاھدہ لکھنو" کو اس لیے اھمیت حاصل ھے کہ؛ یہ معاہدہ آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان پہلا اور آخری سیاسی سمجھوتہ تھا۔ 1915ء میں دونوں جماعتوں کے اجلاس ممبئی میں ایک ھی مقام پر منعقد ھوئے جہاں دونوں پارٹیوں کی طرف سے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تاکہ دونوں جماعتوں کے درمیان مکمل ھم آھنگی اور مفاھمت کے کسی فارمولے پر باالمشافہ بات چیت ھو سکے۔

نومبر 1916ء میں ان کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاس لکھنو میں منعقد ھوا۔ اس اجلاس میں کافی غور و خوص کے بعد ایک معاھدہ طے پایا۔ دسمبر 1916ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے اپنے اجلاس منعقدہ لکھنو میں اس معاھدے کی توثیق کر دی۔

"معاھدہ لکھنو" میں جن نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ان کی تفصیل کچھ یوں ھے۔

1۔ کانگریس نے مسلم لیگ کا مطالبہ برائے جداگانہ انتخاب تسلیم کر لیا۔

2۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے بھی کانگریس نے اتفاق کر لیا۔

3۔ ھندوؤں کو مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب اور بنگال میں Weight age دیا گیا۔ ان صوبوں میں ھندو نشستوں میں اضافے کے ساتھ مسلم لیگ نے اتفاق کر لیا۔

4۔ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی وھاں مسلم نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا۔

5۔ اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ؛ کوئی ایسا بل یا قرارداد جس کے ذریعے اگر ایک قوم متاثر ھو سکتی ھے اور اسی قوم کے تین چوتھائی اراکین اس بل یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا کوئی مسودہ قانون کاروائی کے لیے کسی بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

مسلم لیگ کے اجلاس میں بنگال سے فضل الحق ' عبدالرسول ' مولانا اکرم خان اور ابوالقاسم۔ پنجاب سے سر فضل حسین ' ذوالفقارعلی خان۔ یوپی سے سر رضا علی ' سرمحمد یعقوب ' آل نبی اور آفتاب احمد خان۔ بہار سے حسن امام اور مظفر حق نے شرکت کی اور "لکھنو پیکٹ" طے پایا۔

"لکھنو پیکٹ" آگے چل کے "دو قومی نظریہ" کی بنیاد بنا۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کو تسلیم کیا۔ گو کہ مسلمانوں اور ھندوﺅں کا ایک بڑا طبقہ اس پیکٹ کے شدید خلاف تھا۔

No comments:

Post a Comment