Monday 27 July 2020

پنجابیوں کی وجہ سے "پاکستان کی عوام" بحران میں مبتلا رھے گی۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کا "بیانیہ" تھا کہ؛ پاکستانی ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ رھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان رھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت رھی اور ایک سیاسی مفاد انکا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کی سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی برتری رھا۔

ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود پاکستان کی بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ قومیں دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتی ھیں۔ انکی زبانیں الگ الگ ھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ ھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ ھے۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں ھیں اور انکے اپنے اپنے سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی مفادات ھیں۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کے "بیانیہ" کو مسترد کرکے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے تو 1971 میں ھی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے بنگلہ دیش کے نام سے آزاد ملک بنا لیا تھا۔ لیکن پاکستان میں اس وقت یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی میں ھے اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں میں سے مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کے ذریعے اور انکے "بیانیہ" کے مطابق پاکستان تو کیا کراچی کے سیاسی اور حکومتی معاملات چلانا بھی ممکن نہیں رھا۔

جبکہ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے اور 40٪ آبادی سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی ھے۔ لیکن پنجابی مذھبی رھنما اور فوجی ' افسر اور کلرک ' دانشور اور تجزیہ نگار ‘ صحافی اور وکیل ‘ سیاستدان اور سیاسی ورکر پنجابیوں کے پاکستان کی 60٪ آبادی ھونے کے باوجود پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت ' پنجابی تاریخ ' پنجابی جغرافیے اور پنجابی وسائل و مسائل کے مطابق "بیانیہ" بنا کر پاکستان کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے کے قابل نہیں ھیں۔

اس لیے پنجابی جب تک پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت ' پنجابی تاریخ ' پنجابی جغرافیے اور پنجابی وسائل و مسائل کے مطابق "بیانیہ" تشکیل دے کر یوپی ' سی پی کی زبان ' تہذیب ' ثقافت ' تاریخ ' جغرافیے اور وسائل و مسائل کے مطابق تکشیل دیے گئے "بیانیہ" سے نجات حاصل کرکے پاکستان کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے کے لیے پنجابی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کی پرورش و تربیت نہیں کرتے اور پاکستان کی 40٪ آبادی سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی اور راجستھانی کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی پالیسی تشکیل نہیں دیتے۔ اس وقت تک؛

1۔ پاکستان میں سیاسی بحران رھے گا۔

2۔ پاکستان کی حکومت عدمِ استحکام میں مبتلا رھے گی۔

3۔ پاکستان کی سالمیت کو خطرات لاحق رھیں گے۔

4۔ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں نے؛

الف)۔ "بیانیہ" کے بغیر "بے وقت کی راگنی" الاپتے رھنا ھے۔

ب)۔ "بے مقصد بھاگ دوڑ" کرتے رھنا ھے۔

پ)۔ "اپنا وقت برباد" کرتے رھنا ھے۔

ت)۔ "پاکستان کے وسائل تباہ" کرتے رھنا ھے۔

ٹ)۔ "پاکستان کے عوام کو گمراہ" کرتے رھنا ھے۔

جس کی وجہ سے پاکستان کی عوام سماجی انتشار ' سیاسی بحران ' حکومتی عدمِ استحکام ' معاشی مشکلات میں مبتلا رھے گی۔

No comments:

Post a Comment