Monday 27 July 2020

پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر "پنجابی بیانیہ" کو برداشت کیا کریں۔

عرصہ دراز سے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کی طرف سے پنجابی مخالف "سیاسی بیانیہ" بناکر پنجابیوں کی "کھٹیا کھڑی" کی جا رھی ھے۔ جبکہ پنجابی صرف اخلاق ' فلسفے اور دانشوری کے دائرے میں رہ کر جواب دیتے رھے ھیں۔ پنجابیوں کی طرف سے صرف اخلاق ' فلسفے اور دانشوری کے دائرے میں رہ کر دیے جانے والے جواب کو نہ تو پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں نے اھمیت دینی تھی اور نہ تسلیم کرنا تھا۔ اس لیے انہوں نے نہ تو اھمیت دی اور نہ تسلیم کیا۔

جبکہ عام پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کو ایک تو پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے میں مکمل اور درست معلومات نہیں ھیں۔ دوسرا پنجابی مخالف "سیاسی بیانیہ" بناکر ان کے دانشور انہیں غلط باتیں بناتے رھے ھیں۔ ان کے صحافی غلط باتیں لکھتے رھے ھیں۔ ان کے سیاستدان غلط باتیں بتاتے رھے ھیں۔ جس کی وجہ سے عام پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر گمراھی میں مبتلا ھیں اور غلط معلومات کو جواز بنا کر؛

1۔ پنجابیوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے رھتے ھیں۔

2۔ پنجابی قوم کی تذلیل و توھین کرتے رھتے ھیں۔

3۔ پنجابیوں کو گالیاں اور دھمکیاں دیتے رھتے ھیں۔

4۔ پنجابیوں کا مالی اور جسمانی نقصان کرتے رھتے ھیں۔

5۔ پنجابیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے رھتے ھیں۔

اس لیے پنجابیوں کی طرف سے اب بہتر یہ ھی سمجھا جا رھا ھے کہ؛ اخلاق ' فلسفے اور دانشوری کے دائرے میں رہ کر پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کو مطمئن کرکے مفاھمت کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے پنجابیوں کی طرف سے بھی "سیاسی بیانیہ" بنانے پر دھیان دیا جائے۔ تاکہ پنجابیوں کے خلاف پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کے بنائے گئے "سیاسی بیانیہ" کا پنجابیوں کی طرف سے بھی "سیاسی بیانیہ" کے ذریعے جواب دیا جاسکے۔

پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کا "سیاسی بیانیہ" ھے کہ؛ پنجابی لوٹ رھے ھیں۔ پنجابیوں کا "سیاسی بیانیہ" ھے کہ؛ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کی طرف سے پنجابیوں کو بلیک میل کیا جاتا ھے۔ اس تنازع کا حل جب نکلے گا تو حقیقت آشکار ھوگی کہ؛ کس کا "سیاسی بیانیہ" درست ھے؟

تاریخ بہتر "سیاسی بیانیہ" تشکیل دینے والوں کی تراشیدہ کہانی ھوتی ھے۔ اس کہانی میں حالات و واقعات کو اپنے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی فائدے اور اپنے مد مقابل کے لیے نقصان پہنچانے والا بنا کر پیش کیا جاتا ھے۔ پنجابی قوم جب پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کے خودساختہ بنائے گئے "سیاسی بیانیہ" کو برداشت کرتی رھی ھے تو؛ اب پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر بھی پنجابیوں کا بنایا گیا "سیاسی بیانیہ" سنا کریں اور برداشت کیا کریں۔

اس کے علاوہ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کی پنجابیوں کے خلاف "سیاسی صف بندی" کے مقابلے میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کی "سیاسی صف بندی" بھی کی جائے گی۔

فزکس میں نیوٹن کا قانون نمبر ایک ھے کہ؛ ھر عمل کا رد عمل ھوتا ھے۔ جبکہ قانون نمبر دو ھے کہ؛ ھر عمل کا برابر اور الٹا رد عمل ھوتا ھے۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کے پنجابیوں کے خلاف شروع کیے گئے عمل کا آخر پنجابیوں کی طرف سے رد عمل بھی آنا ھی تھا اور رد عمل بھی عمل کی نوعیت کے مطابق برابر اور الٹا ھی آنا تھا۔

پاکستان میں پنجابی آبادی 60٪ ھے۔ جبکہ 40% آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی ھے۔ لیکن پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں نے پنجابیوں کے بارے میں "سیاسی بیانیہ" بنایا ھوا ھے اور اس "سیاسی بیانیہ" کے ذریعے سے پنجابیوں کو بلیک میل کیا جاتا ھے۔

اس لیے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کو چاھیے کہ؛ اپنے بنائے ھوئے "سیاسی بیانیہ" کو پنجابیوں سے درست تسلیم کروانے پر اصرار کرنے کے بجائے قومی سطح پر پنجابیوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرکے اپنے "سیاسی بیانیہ" کو صحیح ثابت کریں۔ ورنہ پنجابیوں کے بنائے جانے والے "سیاسی بیانیہ" کی وجہ سے پیدا ھونے والے رد عمل کو برداشت کرنے کی تیاری کریں۔

ابھی تو 2020 سے پنجابیوں کا پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کے لیے رد عمل اور وہ بھی عمل کی نوعیت کے مطابق برابر اور الٹا رد عمل آنا شروع ھوا ھے۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دانشوروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں کو غور و فکر کرنی چاھیے کہ؛ 2030 تک پنجابی رد عمل کہاں تک پہنچ جائے گا؟

No comments:

Post a Comment