کردستانی
قبائل نے پندرھویں صدی عیسوی میں میر شیہک کی سر کردگی میں وادئ سندھ کی تہذیب کے
مھرگڑہ کے علاقے مکران میں قدم رکھا اور مکران کے حکمراں بدرالدین کے ساتھ جنگ
کرکے علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ اسکے بعد میر شیہک نے بلیدہ سے چل کر براھوئیوں کے ساتھ
جنگ کرکے 1486 میں قلات کو فتح کر لیا۔ جو براھوئی ان کے مقابلے پر آئے یا تو وہ
قتل کردیے گئے یا وہ علاقہ چھوڑ گئے۔ جبکہ براھوئیوں کے اشرافیہ طبقے کو بلوچوں کی
اطاعت قبول کرنا پڑی۔ بلوچ کے ظلم و زیادتیوں سے بچنے کے لیے بہت سے درمیانہ طبقے
اور عام طبقے کے براھوئی نے اور مھرگڑہ تہذیب کے علاقے میں رھنے والے بہت سے قبائل
نے خود کو بلوچ کہلوانا شروع کردیا۔ انہیں اب نقلی بلوچ کہا جاتا ھے۔
بلوچستان
کے نام سے صوبہ تو یکم جولائی 1970 کو وجود میں آیا۔ جبکہ انگریز نے 1887 میں
براھوئیوں کے شمالی علاقوں کا نام "برٹش بلوچستان" رکھا تھا۔ یہ علاقہ
مھرگڑہ کی تہذیب کا علاقہ ھے اور ھزاروں سالوں سے براھوئی قوم کا علاقہ ھے۔ دراوڑی
زبان کا لفظ ھے " بر" جسکے معنی ھیں "آنا" اور دوسرا لفظ ھے
"اوک" جو کہ اسم مفعول کی نشانی ھے. جسکے معنی "والا" ھے.
"بر- اوک" کے لفظ کا مفہومی معنی "نیا آنے والا" یعنی "
نو وارد ' اجنبی ' پرائے دیس والا " ھے. کردستانی بلوص قبائل جب پندھرویں صدی
عیسوی میں براھوئی کی زمین پر آنا شروع ھوئے تو براھوئی انکو "بر- اوک"
کہتے تھے۔ کردستانی قبائل نے براھوئیوں کے علاقے پر 1486 میں قبضہ کیا اور قبضے کے
بعد کردستانی بلوص قبائل " بلوص " سے " بروک" پھر "
بروچ" اور پھر "بلوچ" بن گئے اور براھوئیوں کو بھی بلوچ بنانا شروع
کردیا۔
بلوچستان
اور سندھ میں براھوئیوں کی آبادی بہت زیادہ ھے لیکن بلوچوں نے چونکہ بہت سارے
براھوئیوں کو زبردستی بلوچ بنایا ھوا ھے۔ جبکہ پنجاب میں بھی براھوئیوں کو بلوچ
سمجھا جاتا ھے۔ اس لیے براھوئی قوم کا وجود مٹتا جا رھا ھے۔ بلوچ نے 1783 میں سندھ
پر بھی قبضہ کرکے موھنجودڑو کی تہذیب کے اصل باشندوں سماٹ کو اپنا غلام بنا لیا
تھا۔ اس لیے سندھ پر قبضہ ھونے کی وجہ سے بلوچوں نے انگریز کو افغانستان تک پہنچنے
میں مدد دینے کے عوض انگریز سے ساز باز کرکے براھوئیوں کے شمالی علاقہ کا نام 1887
میں "برٹش بلوچستان" رکھوادیا۔ انگریز نے "برٹش بلوچستان" میں
افغانستان سے پٹھانوں کو لاکر قابض کروانا شروع کیا تاکہ انگریز کو افغانستان تک
پہنچنے میں سندھ پر قابض بلوچوں کے علاوہ "برٹش بلوچستان" پر قابض
پٹھانوں کی بھی مدد حاصل ھوتی رھے۔
کردستانی
بلوچوں کو مغل بادشاہ ھمایوں نے مغل بادشاہ بابر کے دور سے پنجاب میں بابا نانک کی
قیادت میں شروع کی جانے والی مغلوں کے خلاف پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے
لیے 1555 میں ساھیوال کے علاقے میں آباد کیا اور جاگیریں دیں۔ پنجابیوں کی مزاھمت
کی وجہ سے ھمایوں بادشاہ کو شیر شاہ سوری کے ھاتھوں اپنی بادشاھت سے ھاتھ دھونے
پڑے تھے۔ اس کے بعد ھمایوں کو برسوں در بدری کی زندگی گزارنی پڑی اور اس در بدری
کے دور میں ھی اکبر کی پیدائش ھوئی تھی جو بعد میں تاریخ کا اکبر اعظم بنا۔
مغل
بادشاہ اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی قیادت میں پنجابیوں کی مزاھمت کے تیز ھوجانے کی
وجہ سے مغلوں نے جنوب مشرقی پنجاب کے علاقے میں بھی کردستانی بلوچوں کو بہت بڑی
تعدا میں آباد کرنا شروع کردیا اور ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ بلوچوں نے ڈیرہ
غازی خان ' ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ فتح خان کے نام سے اپنی کمین گاھیں بنائیں
اور مظفر گڑہ میں بھی آباد ھونے لگے۔ اس طرح پنجاب کے جنوبی علاقوں میں کردستانی
بلوچوں کا قبضہ ھوگیا۔ جس طرح براھوئیوں کو اپنا غلام بناکر 1887 میں انگریز سے
براھوئیوں کے شمالی علاقے کا نام "برٹش بلوچستان" رکھوا کر بلوچوں نے
براھوئیوں کے علاقے اور براھوئیوں پر غلبہ پایا اور سماٹ کو اپنا غلام بناکر 1936
میں انگریز سے سماٹ کے علاقے کا نام سندھ رکھوا کر بلوچوں نے سماٹ کے علاقے اور
سماٹ پر غلبہ پایا۔ اسی طرح اب کردستانی بلوچ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ والی پنجابی '
ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کے علاقے کا نام "سرائیکستان" رکھوا کر
ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کے علاقے اور ڈیرہ والی پنجابی
' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کے پر غلبہ پانا چاھتے ھیں۔
No comments:
Post a Comment