Monday 27 July 2020

کراچی کو "وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقہ" قرار دیا جائے۔

سندھ صوبے کا ایک شہر ھونے کی وجہ سے "کراچی سندھیوں کا شہر" نہیں بن سکتا اور نہ کراچی کی 20% آبادی مھاجر ھونے کی وجہ سے "کراچی مھاجروں کا شہر" ھوسکتا ھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد؛

01۔ کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے۔

02۔ کراچی کو پاکستان کی انڈسٹری کا شہر قرار دے کر پنجابی صنعتکاروں سے کراچی میں انڈسٹری لگوانے اور انڈسٹری میں کام کرنے کے لیے پٹھانوں کو بلانے۔

03۔ کراچی میں پاکستان کے دارالحکومت کے کراچی سے اسلام آباد منتقل ھونے کے باوجود ابھی تک کچھ وفاقی اداروں کے دفاتر ھونے۔ جبکہ وفاقی اداروں کے ذیلی دفاتر بھی ھونے۔

04۔ کراچی میں بینکوں ' انشورنس کمپنیوں ' امپورٹ و ایکسپورٹ ' صحافت اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ کاروباری اداروں کے دفاتر ھونے۔

05۔ کراچی کے پاکستان کی سمندری بندرگاہ ھونے۔

06۔ کراچی کے ساحلی شہر ھونے کی وجہ سے پاکستان کی نیوی کا مرکز ھونے۔

07۔ کراچی میں پاک فوج کی ایک کور کے ھونے۔

08۔ کراچی کی آبادی کا 20٪ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ھونے۔

09۔ کراچی کی آبادی کا 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی ' 10٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی ' 5% بلوچ کے ھونے۔

10۔ کراچی کی آبادی کا 20٪ کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' ھندکو ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' بہاری ' بنگالی ' برمی ' ایرانی ' افغانی و دیگر پر مشتمل ھونے۔

کی وجہ سے کراچی "منی پاکستان" ھے۔

کراچی کے "منی پاکستان" ھونے کی وجہ سے کراچی کے صوبائی امور سندھیوں پر مشتمل صوبائی حکومت اور سندھی افسران کے ذریعے جبکہ کراچی کے مقامی امور مھاجروں پر مشتمل مقامی حکومت اور مھاجر افسران کے ذریعے چلانے سے کراچی میں انتظامی بد نظمی ' سیاسی انتشار ' سماجی پیچیدگی رھتی ھے۔ جس سے کراچی میں نفسانفسی ' بے چینی اور ھیجان رھتا ھے۔ جو انتظامیہ کو بدعنوان بناتا ھے۔ معیشت تباہ کرتا ھے۔ کراچی کا امن و امان برباد کرتا ھے۔

کراچی کے "منی پاکستان" ھونے کی وجہ سے کراچی کو وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دے کر کراچی میں رھنے والے پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ ' گجراتی ' راجستھانی ' مھاجر و دیگر سیاستدانوں و سرکاری افسران پر مشتمل وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ادارے کے ذریعے کراچی کے امور کو انجام دیا جائے۔

No comments:

Post a Comment