Tuesday, 14 July 2020

ایم کیو ایم کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے بنایا یا مھاجر اسٹیبلشمنٹ نے بنایا؟

یہ کچھ پوائنٹس ھیں جو ان لوگوں کی سوچ بچار کے لیے کافی ھیں ' جو یہ سمجھنا چاھتے ھیں کہ آرمی اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر ایم کیو ایم کیا ھوتی ھے اور آرمی اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بعد کیا ھوتی ھے۔

یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ ایم کیو ایم کو کب آرمی اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ مل جاتی ھے اور کب نہیں مل پاتی۔

یہ بھی نوٹ کیا جا سکتا ھے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جب مہاجر ھو تو ایم کیو ایم کی موج ھو جاتی ھے اور چیف آف آرمی اسٹاف جب مہاجر نہ ھو تو ایم کیو ایم مردار ھو جاتی ھے۔

1987 میں چیف آف آرمی اسٹاف تو پنجابی جنرل ضیاء الحق تھا لیکن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن تھا ، جو کہ 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل بھی رھا اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا۔

پنجابی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پریذیڈنٹ آف پاکستان ھونے کی وجہ سے مہاجر جنرل مرزا اسلم بیگ 1985 میں چیف آف جنرل اسٹاف ھونے کی وجہ سے آپریشنل اور انٹیلیجنس کے معاملات میں خود مختار تھے۔ مارچ 1987 سے مہاجر مرزا اسلم بیگ وائس چیف آف آرمی اسٹاف بھی بن گے۔ مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن بھی 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رھے۔ ایم کیو ایم ان ھی مہاجرجنرلوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس ' سول بیوروکریسی میں موجود یوپی ' سی پی کے مھاجروں کا برین چائلڈ ھے۔

1985 میں سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھیوں کی اور شہری علاقوں میں مھاجروں کی اکثریت تھی۔ دیہی علاقوں کے سندھیوں کی اکثریت پی پی پی میں تھی اور شہری علاقوں کے مھاجروں کی اکثریت جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان میں تھی۔ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر پاکستان کی نیشنل اور پروینشل اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کے بعد مارشل لاء ختم کر کے اس وقت کے پریذیڈنٹ آف پاکستان جنرل ضیاء الحق کے پلان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کی سب سے بڑی اور رولنگ پارٹی بن گئی۔

1985 میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا سینٹرل پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر آف پاکستان سندھی محمد خان جونیجو پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کا پریذیڈنٹ اور چیف منسٹر آف سندھ سندھی غوث علی شاہ کے بن جانے اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) میں نیشنل لیول پر سندھی ' پنجابی ' پٹھان اور بلوچ کا غلبہ ھو جانے ' جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں تو سندھیوں کی اکثریت کی وجہ سے مھاجروں کی ڈومینیشن نہیں تھی۔ لیکن سندھ کے شہری علاقوں پر بھی ' جہاں مھاجروں کی اکثریت بھی تھی اور ڈومینیشن بھی تھی ' پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کی ڈومینیشن ھو جانے اور پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ ' سندھ گورنمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) پر مھاجروں کا کنٹرول نہ ھو پانے کی وجہ سے 1984 میں بنائی گئی مھاجروں کی غیر فعال سیاسی پارٹی مھاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو 1986 میں عملی طور پر کراچی اور حیدرآباد سے سیاست کے میدان میں اتارا گیا۔ تاکہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے سندھ کے شہری علاقوں پر مھاجروں کی سیاسی بالادستی قائم کروا کر سندھ کے بڑے بڑے شہروں پر مھاجروں کا مکمل کنٹرول قائم کروا کر ' دیہی علاقوں کے سندھیوں کو سندھ کے شہری علاقوں پر ڈومینیٹ ھونے سے روکا بھی جائے اور سندھ کے شہری علاقوں میں مھاجروں کے ڈومینیٹڈ ھونے کو بنیاد بنا کر مھاجروں کی فیڈرل گورنمنٹ اور سندھ کی پروینشل گورنمنٹ کے لیے سیاسی اھمیت کو یقینی بنا کر مھاجر بیوروکریسی اور اشرافیہ کو پولیٹیکل سپورٹ فراھم ھوتے رھنے کا انتظام کیا جا سکے۔

پاکستان کی فیڈرل اور سندھ کی پرویشنل گورنمنٹ پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے پاس ھونے ' کراچی اور حیدرآباد سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے ایم این ایز ' ایم پی ایز ' سنیٹرز کے ھونے کے باوجود 1987 میں ھونے والے لوکل باڈیز الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے بجائے ایم کیو ایم کو کراچی اور حیدرآباد سے منتخب کروا کر کراچی اور حیدرآباد کے میئر ایم کیو ایم کے بنوائے گے۔ جس کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد کے لوکل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس اور لوکل افیئرز میں اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر نے ٹوٹل ڈومینیٹنگ پوزیشن حاصل کرنا شروع کردی۔ لہذا پروینشل گورنمنٹ اور فیڈرل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس کو پریشرائز کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے اور بلیک میل کرتے رھنے کے لیے جلسے ' جلوس ' مظاھرے ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھنگامے ' ھڑتالیں کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔

1987 میں پریزیڈنٹ آف پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف تو پنجابی جنرل ضیاء الحق تھا لیکن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن تھا اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا۔

1988 میں پہلی بار جب پی پی پی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل کیا گیا تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا اور جب پی پی پی کی حکومت نے 1990 میں ایم کیو ایم کے خلاف قلعہ آپریشن شروع کیا تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا ، جس کی وجہ سے پی پی پی حکومت ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن مکمل نہ کر سکی اور پی پی پی کی حکومت ختم کردی گئی۔

1990 میں جب نواز شریف کی حکومت میں ایم کیو ایم شامل ھوئی تو اس وقت بھی پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان ھی تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف بھی' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا۔

1992 میں جب نواز شریف نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا اور ایم کیو ایم کو حکومت سے نکال دیا گیا تو اس وقت بھی پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان ھی تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل آصف نواز جنجوعہ تھا۔

1993 میں جب دوبارہ پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان بلوچ فاروق لغاری تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پٹھان جنرل وحید کاکڑ تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا اور نواز شریف کی حکومت کے وقت سے جاری ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی جاری رھا۔

1997 میں جب دوبارہ نواز شریف کی حکومت بنی تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان پنجابی رفیق تارڑ تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل جہانگیر كرامت تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا گیا۔

1998 میں جب حکیم سعید کے قتل کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو مھاجر جنرل جہانگیر كرامت نے نواز شریف کی حکومت کو بحران میں مبتلا کرنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنرل جہانگیر كرامت کو نکال کر دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بنانا پڑا۔ دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بھی مھاجر ھی بنا دیا گیا ' جو مھاجر جنرل مشرف تھا ' جس نے نواز شریف کی حکومت ھی ختم کردی۔

2001 میں مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف اور پریزیڈنٹ آف پاکستان ' جنرل مشرف کی حکومت کے دور میں الطاف حسین نے برطانیہ کے پرائم منسٹر ٹونی بلیئر کو خط لکھا۔ جس کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے پاکستان میں جاسوسی کرنے اور ایم کیو ایم کو پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ اور سندھ گورنمنٹ میں حصہ دینے کا معاھدہ ھوا۔ ظاھر ھے گورنمنٹ آف پاکستان کی مرضی کے بغیر معاھدہ نہیں ھو سکتا تھا اور 2001 میں مھاجر جنرل مشرف ھی پاکستان کا چیف آف آرمی سٹاف اور چیف ایگزیکٹو تھا۔ اس نے ھی معاھدہ کی توثیق کی ھوگی۔ بلکہ معاھدہ کروایا اور ایم کیو ایم کے مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان ڈالی۔ ورنہ ایم کیو ایم تو اس وقت تک مردار ھو چکی تھی۔

2002 کے الیکشن کے بعد پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت بنی تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف اور پریزیڈنٹ آف پاکستان ' مھاجر جنرل مشرف ھی تھا۔ ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل کی گئی اور 2008 تک حکومت میں ھی رھی۔

2008 میں ایک بار پھر سے پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف گو کہ پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی تھا لیکن اس کے باوجود سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنایا۔ یہ واحد موقع ھے جب ایم کیو ایم مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف کے نہ ھونے کے باوجود حکومت کا حصہ بننے میں کامیاب ھوئی اور اس کی وجہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری کا ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنا کر پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف ایم کیو ایم کو استعمال کر کے پنجاب کو سرائیکی سازش کے ذریعے تقسیم کرنا ' پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنانا یا پنجاب میں گورنر رول کو ھی جاری رکھنا ' مھاجر آمر جنرل مشرف کی طرف سے پی سی او کے ذریعے ھٹائے گئے پنجابی چیف جسٹس چودھری افتخار کو بحال نہ ھونے دینا ' مھاجر بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ لے کر پنجابی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو کارنر کرنا تھا۔ جس میں یہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کا چیئرمین آصف زرداری ناکام رھا۔

2013 میں ایک بار پھر سے نواز شریف کی حکومت بنی تو پریزیڈنٹ آف پاکستان مھاجر ممنون حسین کو بنایا گیا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل اشفاق پرویز كیانی تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

2016 میں بھی نواز شریف کی ھی حکومت تھی۔ پریزیڈنٹ آف پاکستان تو مھاجر ممنون حسین تھا۔ لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل راحیل شریف تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

2017 میں بھی نواز شریف کی ھی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور نواز شریف کا نامزد کردہ شاھد خاقان عباسی پاکستان کا وزیرِ اعظم تھا۔ پریزیڈنٹ آف پاکستان تو مھاجر ممنون حسین تھا۔ لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل قمر باجوہ تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ ایم کیو ایم پر بھارتی ایجنسی "را" کے ساتھ رابطہ ھونے اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ٹی وی چینل پر خطاب کرتے ھوئے بھارت سے کھلے عام مدد لینے کی اپیل کرنے کی وجہ سے ن لیگ کی حکومت نے پابندی لگا دی تھی۔

کیا ایم کیو ایم ملٹری اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس اور سول بیوروکریسی میں موجود مھاجر پاور پلیئرس کا ایک پولیٹیکل ونگ نہیں ھے؟

No comments:

Post a Comment