Monday, 29 June 2020

پاکستان میں "پنجابی راج" کیوں ضروری ھے؟

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی قوم کی ھے۔ جبکہ 40% آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر قوموں کی ھے۔

پاکستان کی تمام قومیں پاکستان میں ھر جگہ آپس میں مل جل کر رہ رھی ھیں۔ اس لیے پاکستان میں کوئی بھی علاقہ کسی قوم کا "راجواڑہ" نہیں ھے۔ البتہ پاکستان میں انتظامی معاملات کے لیے یونین کونسلیں ' تحصیلیں ' ضلعے ' ڈویژنوں اور صوبے بنائے گئے ھیں۔

اپنا اپنا سماجی ' سیاسی ' معاشی تسلط قائم کرکے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے کو پٹھان اپنا "راجواڑہ" قرار دیتے رھتے ھیں۔ بلوچستان کے براھوئی علاقے ' دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کو بلوچ اپنا "راجواڑہ" قرار دیتے رھتے ھیں۔ کراچی کو ھندوستانی مھاجر اپنا "راجواڑہ" قرار دیتے رھتے ھیں۔

آمرانہ نظام میں تو آمر کے پاس حکومت ھونے کی وجہ سے ملک کے لیے پالیسی آمر بناتا ھے۔ لیکن جمہوری نظام میں ملک کے لیے پالیسی بنانا جمہوری حکومت کا کام ھوتا ھے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی اور فوج کا کام بنائی گئی پالیسی پر قانون کے مطابق عملدرآمد کروانا اور کرنا ھوتا ھے۔

چونکہ اپنی اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی بالادستی قائم کرلینے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر ' بلوچ اور پٹھان پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان پر آمرانہ یا جمہوری نظام کے تحت حکومت کرتے رھے ھیں۔ بلکہ اب بھی کر رھے ھیں۔ اس لیے پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان کی پالیسی پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر بناتے رھے ھیں۔

پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں میں پاکستان کے لیے پالیسی بنانے کی صلاحیت نہ ھونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے پالیسی ناقص بنتی رھی ھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں سماجی انتشار ' معاشی بحران ' انتظامی بدنظمی اور اقتصادی بربادی کا ماحول ھے۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی آبادی چونکہ پاکستان میں پنجابی قوم کے مقابلے میں بہت کم ھے۔ اس لیے آمرانہ یا جمہوری نظام کے تحت پاکستان کی حکومت سمبھالنے کے بعد بھی پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کو پنجابی قوم کا خوف رھتا ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کے خلاف سازشوں میں مصروف رھتے ھیں۔

پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پنجابیوں پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے عنوان سے "بیانیہ" بناکر پنجابیوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا ھے۔ تاکہ پنجابی قوم کی طرف سے پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں کا محاسبہ نہ کیا جاسکے۔

پاکستان کی 60% آبادی چونکہ پنجابی قوم کی ھے۔ اس لیے پاکستان میں سماجی استحکام ' معاشی آسودگی ' انتظامی بہتری اور اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان میں "پنجابی راج" قائم کرنا پڑے گا۔ تاکہ پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں کی پنجابی قوم کے خلاف سازشوں کو ختم کیا جاسکے اور پاکستان کے لیے بہترین پالیسی بنائی جاسکے۔

پاکستان میں "پنجابی راج" قائم کرنے کے بعد پاکستان کی مظلوم قوموں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کو بھی پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سماجی ' سیاسی ' معاشی بالادستی سے نجات دلوائی جا سکے گی۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی جب تک پاکستان میں "پنجابی راج" قائم کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت خود نہیں سمبھالے گی۔ اس وقت تک؛

1۔ نہ تو پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں سے پاکستان کے لیے بہترین پالیسی بنائی جاسکنی ھے۔

2۔ نہ پاکستان کی مظلوم قوموں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کو سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' سیاسی استحکام ' انتظامی انصاف ملنا ھے۔

3۔ نہ پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں نے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے عنوان سے "بیانیہ" بناکر پنجابیوں کو ذلیل و خوار کرنے سے باز آنا ھے۔

پنجاب میں صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا اثر کم کیوں اور کیسے ھوا؟

پنجابی قوم پر بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باھو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش جیسے عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا بہٹ گہرا اثر تھا۔ اس لئے پنجابی قوم کا اخلاقی کردار بھی بہتر تھا اور پنجابی قوم کی روحانی نشو نما بھی ھوتی رھی۔ لحاظہ پنجابی قوم کا پس منظر روحانی ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم میں علم ' حکمت اور دانش کے خزانے تھے۔ لیکن پنجاب میں مغلوں کا دور شروع ھوتے ھی بابر کے خلاف بابا گرونانک اور اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی جدوجہد کی وجہ سے پنجاب میں مغلوں کے لیے پنجاب سمبھالنا مشکل ھوگیا تھا۔ اس لیے بابر کی بادشاھی کے دور سے ھی مغلوں نے افغانستان سے پٹھان لاکر پنجاب میں آباد کرنا شروع کیے ھوئے تھے۔ 1556 میں ھمایوں نے بھی بلوچوں کے رند قبیلے کے سردار چاکر خان رند کو قبیلے سمیت بلوچستان سے لاکر پنجاب میں آباد کیا اور اسکے بعد 1751 تک پنجاب پر مغلوں کا قبضہ رھا۔ مغل افغانستان سے پٹھان لاکر پنجاب کے مغربی علاقہ اور بلوچستان سے بلوچ لاکر پنجاب کے جنوبی علاقہ میں آباد کرتے رھے۔

1747 میں افغانستان کی سلطنت قائم کرنے کے بعد 1751 میں افغانستان سے آکر احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر قبضہ کرلیا جو کہ 1756 میں جالندھر دوآبہ کے حاکم ارائیں قبیلہ کے ادینہ بیگ خان نے ختم کروالیا اور پنجاب کا حاکم بن گیا لیکن ادینہ بیگ خان کے انتقال کے بعد 1762 میں افغانستان سے آکر احمد شاہ ابدالی نے پھر سے پنجاب پر قبضہ کرلیا۔ 1799 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے پنجاب کا اقتدار سمبھالنے تک پنجابیوں اور افغانستان کے پٹھانوں میں جنگیں ھوتی رھیں۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کا اقتدار سمبھال کر نہ صرف پنجاب پر سے پٹھانوں کا قبضہ ختم کروالیا بلکہ افغانستان کے پٹھانوں کو بھی دبا کر رکھا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد 1849 میں پنجاب پر انگریز کے قبضہ کے وقت انگریز نے پنجاب کے مشرق کی طرف سے انگریز فوج اور انگریز حکومت میں شامل کرکے اترپردیش کے اردو بولنے والے گنگا جمنا والے ھندوستانی پنجاب لانا شروع کردیے۔ اس لیے عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مغل حکمرانوں کی سرپرسی میں پہلے پٹھانوں اور بلوچوں کی سازشوں اور پھر انگریزوں کی حکمرانی کے دور میں اترپردیش کے گنگا جمنا والے ھندوستانیوں کی سیاست کا اثر بھی پنجاب کے لوگوں پر ھونے لگا۔

بلوچوں اور پٹھانوں کی اکثریت تو شروع سے ھی تعلیم کی طرف رحجان نہ ھونے کی وجہ سے جاھل اور گنوار تھی۔ اس لیے صوفی بزرگوں کی تعلیمات اور عظیم صوفی بزرگوں میں دلچسپی کے بجائے بلوچوں اور پٹھانوں کا شغل ھمیشہ سے دوسری قوموں کی زمین پر قبضہ کرکے ان قوموں کی زمین میں ظلم ' زیادتی ' بے ایمانی اور بد اخلاقی کو فروغ دینا رھا لیکن اترپردیش کے گنگا جمنا والے ھندوستانی چونکہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے پڑھے ھوئے تھے اس لیے اترپردیش کے گنگا جمنا والے ھندوستانیوں نے پنجاب میں صوفی بزرگوں کی تعلیمات کی جگہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفے کی تبلیغ کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر دین کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے اپنی دنیا اور آخِرَت سنوارنے کے بجائے اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھ دی۔ جسکی وجہ سے پنجاب میں دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کا فلسفہ فروغ پانے لگا اور عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا اثر کم ھونے لگا۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان ' جنہوں نے برطانوی راج کے دور سے ھی پنجاب کے بڑے بڑے شھروں ' خاص طور پر لاھور ' پنڈی اور ملتان پر قبضہ کرنا شروع کردیا تھا لیکن پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کے مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ھو جانے کی وجہ سے پاکستانی پنجاب کے بڑے بڑے شھروں کی اکثریتی آبادی بن گئے۔ پنجاب تقسیم نہ ھوتا۔ پنجاب میں سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کی نقل مکانی نہ ھوتی تو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پنجاب کے بڑے بڑے شھروں کی اکثریتی آبادی بننے کا موقع نہ ملتا۔ نہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کا فلسفہ پنجاب میں فروغ پاتا۔ نہ پنجاب میں صوفی درویشوں کی تعلیمات کا اثر پنجاب میں کم نظر آتا۔ بلکہ بلوچ اور پٹھان قبضہ گیروں کو بھی پنجابی سمبھال کر رکھتے۔

پنجاب کے صوفی بزرگوں کی تعلیمات چونکہ پنجابی زبان میں تھیں لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کی تعلیمات کو اردو زبان میں پنجاب لے کر آئے جبکہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کے پنجاب کے بڑے بڑے شھروں کی اکثریتی آبادی بن جانے کی وجہ سے پنجاب کی زبان بھی اردو ھونے لگی ' پنجاب کی ثقافت پر گنگا جمنا کی ثقافت حاوی ھونے لگی اور پنجابی رسم و رواج کی جگہ لکھنو کا رسم و رواج فروغ پانے لگا۔ اس لیے پنجاب میں نہ صرف صوفی بزرگوں کی تعلیمات پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفہ کا زیادہ غلبہ ھونا شروع ھوگیا بلکہ اردو زبان ' گنگا جمنا کی ثقافت اور لکھنو کے رسم و رواج کا بھی غلبہ ھونا شروع ھوگیا۔

دارالعلوم دیوبند کو 1866ء میں ' دار العلوم ندوۃ العلماء کو 1893ء میں اور بریلوی مدرسوں کو 1904ء میں برطانوی راج کے دوران اتر پردیش میں قائم کیا گیا تھا۔ ان مدرسوں میں درس و تدریس کا ذریعہ اردو زبان تھی۔ ان مدرسوں کے فلسفے کی تبلیغ کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر دین کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے اپنی دنیا اور آخِرَت سنوارنے کے بجائے اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی گئی تھی اور غیر اردو زبان بولنے والے مسلمانوں پر اردو زبان کا تسلط قائم کرنے کے لیے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا شروع کیا گیا تھا۔

پاکستان کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا۔ لیاقت علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر ' پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے شدید احتجاج کے باوجود ' اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیکر ' 25 جنوری 1949 کو پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر اپنی انتظامی گرفت مظبوط کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمان لاکر قابض کروا دیے۔ لحاظہ پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض ھوجانے والے یوپی ' سی پی والوں نے پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لانے کی راہ ھموار کرنا شروع کردی اور پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 1950 میں کئے گئے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں میں بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرکے زمینوں اور جائیدادوں پر بھی قبضے کروا نے شروع کردیے۔لحاظہ پاکستان کے قائم ھوتے ھی نہ صرف پاکستان میں اقرباء پروری ' بے ایمانی ' بد عنوانی اور قبضہ گیری کی بنیاد رکھ دی گئی بلکہ پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوجانے کی وجہ سے پنجاب میں پنجابی زبان کی جگہ اردو زبان ' پنجابی کی ثقافت کی جگہ گنگا جمنا کی ثقافت اور پنجابی رسم و رواج کی جگہ لکھنو کا رسم و رواج مزید فروغ پانے لگا۔ جبکہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفہ کو پنجاب میں مزید فروغ حاصل ھونا شروع ھوگیا۔ جس سے صوفی درویشوں کی تعلیمات کا اثر پنجاب میں مزید کم نظر آتا ھونا شروع ھوگیا۔

پنجاب میں خاص طور پر غیر تعلیم یافتہ ' کم تعلیم یافتہ ' زراعت سے وابسطہ ' پنجاب کے دیہی علاقوں میں رھنے والے اور پنجاب کے دیہی علاقوں سے وابسطہ پنجابی کا اب بھی پنجابی زبان ' پنجابی ثقافت ' پنجابی رسم و رواج اور صوفی درویشوں کی تعلیمات کی طرف رحجان ھے جبکہ بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باھو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش جیسے عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا بہٹ گہرا اثر ھے۔ لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی پنجابی کا لبادہ اوڑہ کر اور خود کو پنجابی ظاھر کرکے پنجاب میں پنجابی زبان کی جگہ اردو زبان ' پنجابی ثقافت کی جگہ گنگا جمنا کی ثقافت ' پنجابی رسم و رواج کی جگہ لکھنو کے رسم و رواج اور صوفی درویشوں کی تعلیمات کی جگہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفہ کو پنجاب میں فروغ دیتے رھتے ھیں۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی چونکہ پنجابی بھی بولتے ھیں ' اس لیے یہ اندازہ کرنا مشکل ھوجاتا ھے کہ وہ پنجابی ھیں یا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ھیں۔

پنجابیوں کو پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر ذلیل و خوار کیوں کرتے ھیں؟

دنیا بھر میں حکومت کا کام سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی پالیسی بنانا ھے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا کام بنائی گئی پالیسی پر قانون کے مطابق عملدرآمد کروانا ھے۔ نہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کا کام کرسکتی ھے اور نہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کا کام کرسکتی ھے۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی جب تک پاکستان میں "پنجابی راج" قائم کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت خود سمبھال کر پاکستان کی سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی پالیسی بنانا شروع نہیں کرے گی۔ اس وقت تک؛

1۔ پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں سے پاکستان کی سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی پالیسی بنائی نہیں جانی۔

2۔ پاکستان کی مظلوم قوموں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کو سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی انصاف ' اقتصادی ترقی نہیں ملنی۔

3۔ پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجروں نے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے عنوان سے پنجابی قوم کے خلاف "بیانیہ" بناکر پنجابیوں کو ذلیل و خوار کرتے رھنا ھے۔

کیا نواز شریف "سیاسی طور پر بانجھ" ھے؟

پنجابی 1988 سے پہلے اپنی مدد آپ کے تحت پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی بالادستی سے نجات ' اپنی عزت و احترام اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ خاص طور پر کراچی ' سندھ ' بلوچستان ' خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے پنجابی۔

لیکن نواز شریف نے 1988 میں "جاگ پنجابی جاگ" کا نعرہ لگا کر 30 سال تک پنجابیوں کو آسرے میں رکھا۔ خاص طور پر کراچی ' سندھ ' بلوچستان ' خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے پنجابیوں کو آسرے میں رکھا۔

نواز شریف کے "جاگ پنجابی جاگ" کے نعرہ سے پنجابی سمجھ بیٹھے تھے کہ؛ پنجابی قوم کی قیادت اب نواز شریف کرے گا۔ اس لیے پنجابی قوم کو پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی بالادستی سے نجات بھی ملے گی۔ عزت و احترام بھی ملے گا۔ حقوق بھی ملیں گے۔

پنجابی 30 سال تک نواز شریف کو سیاسی حمایت دیتے اور انتظار کرتے رھے۔ نواز شریف کو تین بار پاکستان کا وزیرِ اعظم بنایا۔ لیکن عدالت کی طرف سے نواز شریف کو وزارت اعظمی سے برخاست کرنے اور سزا دینے جبکہ سیاست کے لیے نا اھل قرار دینے کے بعد؛

پنجابی اب پھر سے اپنی مدد آپ کے تحت پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی بالادستی سے نجات ' اپنی عزت و احترام اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کو دوبارہ وھیں سے شروع کر چکے ھیں۔ جہاں 1988 سے چھوڑ بیٹھے تھے۔

ن لیگ کے قائد نواز شریف کے سیاسی طور پر بانجھ ھونے کا ثبوت یہ ھے کہ؛ نواز شریف نے 1985 سے لیکر بار بار پنجاب پر حکومت کی بلکہ تین بار پاکستان کا وزیر اعظم بھی رھا۔ لیکن نواز شریف نے پنجاب کی تعلیمی اور دفتری زبان پنجابی نہیں کی۔

نواز شریف نے کبھی بھی پنجابی قوم پرست رھنما کے طور پر پنجابی قوم کی قیادت کرتے ھوئے پنجابی قوم کے ساتھ محاذآرائی کرنے والی دوسری قوموں کی پنجابی قوم کے ساتھ محاذآرائی ختم کروانے کے لیے دوسری قوموں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے۔

نواز شریف کی سیاسی نا اھلی ' سیاسی نا لائقی ' سیاسی نا پختگی اس سے بھی واضح ھوتی ھے کہ؛ نواز شریف کے خلاف "چور کا بیانیہ" بناکر ھندوستانی مھاجر پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ کے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھان عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے پٹھانوں کو ن لیگ کو اقتدار سے نکالنے کے لیے استعمال کیا۔

ن لیگ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے پنجابیوں کو اپنی حمایت پر قائل کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کے سیاست میں ملوث ھونے کو بنیاد بنا کر نشانہ بنانے کے بجائے "پاکستان کے اداروں" کو نشانہ بناتی رھی۔

ن لیگ کے قائد نواز شریف کو "ووٹ کو عزت دو" کا رونا رونے اور "مجھے کیوں نکالا؟" کی شکایت کرنے جبکہ "خلائی مخلوق" جیسے ذو معنی الفاظ استعمال کرکے پاکستان کے اداروں کو نشانہ بنانے کے بجائے عوام کو بتانا چاھیے تھا کہ؛

ھندوستانی مھاجر پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ کے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھان عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے پٹھانوں کو ن لیگ کو اقتدار سے نکالنے کے لیے استعمال کرکے "پاکستان کے اداروں" کو سیاست میں ملوث کرکے پاکستان کے جمہوری ماحول کو خراب اور "پاکستان کے اداروں" کے وقار کو مجروح کیا ھے۔

ن لیگ کے قائد نواز شریف کے غلط سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کی وجہ سے ن لیگ کو نہ صرف اقتدار سے باھر ھونا پڑا بلکہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل نہیں ھے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا ھے تو پھر؛ ن لیگ کی اقتدار میں واپسی کی امید کیسے کی جاسکتی ھے؟

نواز شریف نے اگر "ووٹ کو عزت دو" کا رونا رونے اور "مجھے کیوں نکالا؟" کا پوچھنے اور "خلائی مخلوق" پر الزام لگانے کے بجائے کھل کر یہ کہا ھوتا کہ؛

1۔ ن لیگ کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ھندوستانی مھاجر پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ کے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھان عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے پٹھانوں کو استعمال کرکے "پاکستان کے اداروں" کو سیاست میں ملوث کرکے پاکستان کے جمہوری ماحول کو خراب اور "پاکستان کے اداروں" کے وقار کو برباد کردیا ھے۔

2۔ پاکستان کی عوام اب "سیاسی عدم استحکام" اور پاکستان کے ادارے اب "انتظامی بحران" برداشت کرنے کی تیاری کریں۔

3۔ ھندوستانی مھاجر پرویز مشرف اور پٹھان عمران خان سے جواب لیں کہ؛ انہوں نے پاکستان کے سیاسی ماحول کو قوموں کی محاذآرائی والا کیوں بنایا؟

نوٹ : نواز شریف کے اس موقف کا کیا نتیجہ نکلنا تھا؟

سرائیکی دیش کی سازش کیسے ختم ھوسکتی ھے؟

وسطی پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب "جنوبی پنجاب" سے بلوچوں کی آواز سنتے ھیں کہ؛

بلوچ اپنے ساتھ جنوبی پنجاب کے عربی نژادوں اور پٹھانوں کو ملا کر جنوبی پنجاب کو "سرائیکی دیش" بنائیں گے تو سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا ھوکر بلوچوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛

وہ پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھیں لیکن جنوبی پنجاب کو "سرائیکی دیش" نہ بنائیں۔ سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ جنوبی پنجاب اصل میں ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کا علاقہ ھے اور کردستانی بلوچوں نے کردستان سے قبائل کی شکل میں آکر پہلے براھوئیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات پر قبضہ کرلیا اور اسکے بعد براھوئیوں کو مکمل طور پر اپنے تسلط میں لانے کے بعد موجودہ بلوچستان کہلوائے جانے والے علاقے پر قابض ھوگئے۔ پھر مغل بادشاہ ھمایوں نے مغل بادشاہ بابر کے دور سے بابا نانک کی قیادت میں شروع کی جانے والی مغلوں کے خلاف پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے 1555 میں کردستانی بلوچوں کو پنجاب میں ساھیوال کے علاقے میں آباد کیا اور جاگیریں دیں۔ کیونکہ پنجابیوں کی مزاھمت کی وجہ سے ھمایوں بادشاہ کو شیر شاہ سوری کے ھاتھوں اپنی بادشاھت سے ھاتھ دھونے پڑے تھے۔ اس کے بعد ھمایوں کو برسوں در بدری کی زندگی گزارنی پڑی اور اس در بدری کے دور میں ھی اکبر کی پیدائش ھوئی تھی جو بعد میں تاریخ کا اکبر اعظم بنا۔

مغل بادشاہ اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی قیادت میں پنجابیوں کی مزاھمت کے تیز ھوجانے کی وجہ سے مغلوں نے ڈیرہ غازی خان اور ارد گرد کے علاقے میں بھی کردستانی بلوچوں کو بہت بڑی تعدا میں آباد کرنا شروع کردیا اور ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ اس طرح پنجاب کے جنوبی علاقوں میں کردستانی بلوچوں کا قبضہ ھوگیا۔ 1783 میں عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرکے کردستانی بلوچوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا اور سندھ کے علاقے میں جاگیریں بنانا شروع کردیں۔ اس طرح کردستانی بلوچ ' بلوچستان ' جنوبی پنجاب اور سندھ پر قابض ھوکر بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے۔

جنوبی پنجاب کے بلوچوں نے 1962 سے "پنجابی کو سرائیکی" بنانے کا مشن شروع کرکے اور خود بھی بلوچ کے بجائے "سرائیکی" کا روپ دھار کر پنجابیوں کو اور جنوبی پنجاب کو لوٹنا شروع کیا ھوا ھے۔ جنوبی پنجاب میں کردستانی بلوچ "سرائیکی سازش" کر رھے ھیں۔ جنوبی پنجاب میں بلوچوں نے چونکہ انگریزوں سے بڑی بڑی جاگیریں حاصل کی ھوئی تھیں۔ اس لیے جاگیرداری کی وجہ سے بلوچوں نے جنوبی پنجاب میں پنجابیوں پر اپنی سماجی ' سیاسی و معاشی بالادستی قائم کی ھوئی ھے۔

جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کو سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی طور پر مظبوط کرکے بلوچوں کے ظلم و ستم اور بدمعاشی سے نجات دلوائی جائے۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں بلوچوں ' پٹھانوں اور عربی نژادوں کی جاگیریں ضبط کرلی جائیں اور دریا کے کنارے پر جنگلات کی زمین پر سے بلوچوں ' پٹھانوں اور عربی نژادوں کا قبضہ ختم کروا دیا جائے تو جنوبی پنجاب میں "سرائیکی دیش" کی سازش خود بخود ختم ھوجائے گی۔

بلوچوں کے ظلم و ستم اور بدمعاشی کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کا حال رامؔش قادری نے اس طرح بیان کیا ھے؛

اساں کئی نسلیں توں نوکر ھاں - ساڈے گل پٹہ سرداری دا
اساں پالتو کتے کھوسے دے - ساڈے دل وچ خوف لغاری دا
اساں پٹھو خان دریشک دے - ساڈا ذھن غلام مزاری دا
اساں رامؔش ایویں رُل مرنے - کوئی حل نئیں ایں بیماری دا

آزاد بلوچستان ' سندھو دیش ' سرائیکی دیش ' آزاد پشتونستان کی سازش کا حل کیا ھے؟


بھارتی خفیہ ایجنسی "را" بلوچستان میں "آزاد بلوچستان" کی سازش کر رھی ھے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں رھنے والے بلوچ بھی اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کا راگ الاپ کر اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم کرنے میں مصروف رھتے ھیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی "آزاد بلوچستان" کی سازش کے لیے آلہء کار بنتے ھیں۔ بلکہ سندھ میں رھنے والے بلوچ "سندھو دیش" اور جنوبی پنجاب میں رھنے والے بلوچ "سرائیکی دیش" کا راگ بھی الاپتے رھتے ھیں۔

جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" پٹھانوں کے ذریعے "پشتونستان" کی سازش بھی کر رھی ھے۔ اس لیے صوبہ سرحد کے پٹھان علاقوں میں رھنے والے اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں روزگار کے لیے آئے ھوئے پٹھان بھی اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کا راگ الاپ کر اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم کرنے میں مصروف رھتے ھیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی "آزاد پشتونستان" کی سازش کے لیے آلہء کار بنتے ھیں۔

وسطی پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب "بلوچستان" سے بلوچوں کی آواز سنتے ھیں کہ؛

بلوچ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے "آزاد بلوچستان" بنائیں گے۔ تو سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا ھوکر بلوچوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛

وہ پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھیں اور بلوچستان سے پنجابیوں کی لاشیں پنجاب بھیجتے رھیں لیکن پاکستان سے الگ نہ ھوں۔

سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ بلوچستان اصل میں براھوئی قوم کا علاقہ ھے اور کردستانی قبائل نے براھوئی قوم کی زمین پر 1486 میں قبضہ کیا تھا اور بلوچ بننے کے بعد براھوئی کو بھی بلوچ قرار دے کر بلوچستان پر قابض ھیں۔

براھوئی قوم کے پنجابی قوم کا تاریخی پڑوسی ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کا فرض بنتا ھے کہ؛ براھوئی قوم کو کردستانی بلوچ کے تسلط سے نجات دلوائے۔ اس سے نہ صرف پنجابی قوم کی تاریخی پڑوسی قوم براھوئی کو کردستانی بلوچ قبائل کی سیاسی ' سماجی ' معاشی بالادستی سے آزادی حاصل ھوگی۔ بلکہ بلوچوں کی طرف سے آزاد بلوچستان کی سازش کرکے سیاسی شعور سے عاری پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کی سازش بھی ختم ھوجائے گی۔

وسطی پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب "سندھ" سے بلوچوں اور عربی نژادوں کی آواز سنتے ھیں کہ؛

بلوچ اور عربی نژاد ' کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر سندھ کو پاکستان سے الگ کرکے "سندھودیش" بنائیں گے تو سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا ھوکر بلوچوں اور عربی نژادوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛

وہ پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھیں۔ سندھ اور کراچی میں آباد پنجابیوں کو سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی حقوق نہ دے کر دوسرے درجے کا شھری بنا کر رکھیں۔ بلکہ سندھ اور کراچی سے پنجابیوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرکے سندھ اور کراچی میں آباد پنجابیوں کو پنجاب بھیجتے رھیں لیکن پاکستان سے الگ نہ ھوں۔

سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ سندھ اصل میں سماٹ قوم کا علاقہ ھے اور کردستانی قبائل نے سماٹ قوم کی زمین پر 1783 میں قبضہ کیا تھا۔ جبکہ کردستانی قبائل سے پہلے عربی نژاد نے سماٹ کی زمین پر قبضہ کیا ھوا تھا۔ سندھ میں بلوچ نژاد اور عربی نژاد اب سندھی قوم پرست بنے ھوئے ھیں۔ لیکن پاکستان کے قیام سے پہلے بلوچ نژاد اور عربی نژاد ' سندھی قوم پرست نہیں بلکہ مسلمان قوم پرست تھے۔ مسلم جذبات کو اشتعال دے کر کے ھندو سندھیوں کو ' جو کہ سماٹ تھے ' بلیک میل کرتے تھے۔

پاکستان کے 1947 میں قیام کے بعد پاکستان کا وزیرِ اعظم یوپی کے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خان کے بن جانے سے اور کراچی کے پاکستان کا دارالخلافہ بن جانے کے بعد ستمبر 1948 میں پاکستان کی گورنمنٹ سروس میں انڈین امیگرنٹس کے لیے %15 اور کراچی کے لیے %2 کوٹہ رکھ کر لیاقت علی خان نے یوپی ‘ سی پی سے اردو بولنے والے ھندوستانی لا کر کراچی ' حیدرآباد ' سکھر ' میرپور خاص ' نواب شاہ اور سندھ کے دوسرے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کر دیے اور ھندو سماٹ سندھیوں کو سندھ سے نکالنا شروع کردیا۔ اس عمل کے دوران سندھ کے مسلمان سماٹ سندھیوں نے تو مزاھمت کی لیکن بلوچ نژاد اور عربی نژاد اشرافیہ نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔

سندھ کے اصل باشندے ‘ سماٹ سندھی پہلے ھی اکثریت میں ھونے کے باوجود ‘ صدیوں سے بلوچ نژاد اور عربی نژاد کی بالادستی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر کمتری کے احساس میں مبتلا تھے۔ لیکن ھندو سماٹ سندھیوں کو سندھ سے نکال دینے سے سندھ میں سماٹ سندھیوں کی آبادی بھی کم ھو گئی۔ جس کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں کراچی ' حیدرآباد ' سکھر ' میرپور خاص ' نواب شاہ پر یوپی ‘ سی پی کی اردو بولنے والی ھندوستانی اشرافیہ کی اور سندھ کے دیہی علاقوں پر بلوچ نژاد اور عربی نژاد اشرافیہ کی مکمل سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم ھو گئی اور سماٹ سندھی مستقل طور پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بحران میں مبتلا ھو گئے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سندھ سے سماٹ ھندوؤں کو نکال کر ' ان کے گھروں ' زمینوں ' جائیدادوں اور کاروبار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ بلوچ نژاد اور عربی نژاد ' سندھی قوم پرست بنے بیٹھے ھیں۔ یہ بلوچ نژاد اور عربی نژاد مسلمان سماٹ سندھیوں پر سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی قائم کرنے کے بعد " سندھی قوم پرست " بن کر سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے کے ساتھ ساتھ " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بھی بلیک میل کرتے رھتے ھیں اور سندھودیش کی سازش بھی کرتے رھتے ھیں۔

سماٹ قوم کے پنجابی قوم کا تاریخی پڑوسی ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کا فرض بنتا ھے کہ؛ سماٹ قوم کو بلوچ نژاد اور عربی نژاد کے تسلط سے نجات دلوائے۔ اس سے نہ صرف پنجابی قوم کی تاریخی پڑوسی قوم سماٹ کو بلوچ نژاد اور عربی نژاد کی سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی سے آزادی حاصل ھوگی۔ بلکہ بلوچ نژاد اور عربی نژاد کی طرف سے سندھودیش کی سازش کرکے سیاسی شعور سے عاری پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کی سازش بھی ختم ھوجائے گی۔

جبکہ کراچی میں رھنے والے 50 لاکھ ھندوستانی مھاجروں کی "جناح پور" کی سازش کو ختم کرنے اور "سندھو دیش" کی سازش کی حمایت کرنے کو غیر موثر بنانے کے لیے کراچی میں رھنے والے 25 لاکھ پنجابی ' 25 لاکھ کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' 25 لاکھ گجراتی اور راجستھانی ' 15 لاکھ سماٹ کو آپس میں متحد کرے۔

وسطی پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب "جنوبی پنجاب" سے بلوچوں کی آواز سنتے ھیں کہ؛

بلوچ اپنے ساتھ جنوبی پنجاب کے عربی نژادوں اور پٹھانوں کو ملا کر جنوبی پنجاب کو "سرائیکی دیش" بنائیں گے تو سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا ھوکر بلوچوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛

وہ پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھیں لیکن جنوبی پنجاب کو "سرائیکی دیش" نہ بنائیں۔

سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ جنوبی پنجاب اصل میں ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کا علاقہ ھے اور کردستانی بلوچوں نے کردستان سے قبائل کی شکل میں آکر پہلے براھوئیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات پر قبضہ کرلیا اور اسکے بعد براھوئیوں کو مکمل طور پر اپنے تسلط میں لانے کے بعد موجودہ بلوچستان کہلوائے جانے والے علاقے پر قابض ھوگئے۔ پھر مغل بادشاہ ھمایوں نے مغل بادشاہ بابر کے دور سے بابا نانک کی قیادت میں شروع کی جانے والی مغلوں کے خلاف پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے 1555 میں کردستانی بلوچوں کو پنجاب میں ساھیوال کے علاقے میں آباد کیا اور جاگیریں دیں۔ کیونکہ پنجابیوں کی مزاھمت کی وجہ سے ھمایوں بادشاہ کو شیر شاہ سوری کے ھاتھوں اپنی بادشاھت سے ھاتھ دھونے پڑے تھے۔ اس کے بعد ھمایوں کو برسوں در بدری کی زندگی گزارنی پڑی اور اس در بدری کے دور میں ھی اکبر کی پیدائش ھوئی تھی جو بعد میں تاریخ کا اکبر اعظم بنا۔

مغل بادشاہ اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی قیادت میں پنجابیوں کی مزاھمت کے تیز ھوجانے کی وجہ سے مغلوں نے ڈیرہ غازی خان اور ارد گرد کے علاقے میں بھی کردستانی بلوچوں کو بہت بڑی تعدا میں آباد کرنا شروع کردیا اور ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ اس طرح پنجاب کے جنوبی علاقوں میں کردستانی بلوچوں کا قبضہ ھوگیا۔ 1783 میں عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرکے کردستانی بلوچوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا اور سندھ کے علاقے میں جاگیریں بنانا شروع کردیں۔ اس طرح کردستانی بلوچ ' بلوچستان ' جنوبی پنجاب اور سندھ پر قابض ھوکر بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے۔

جنوبی پنجاب کے بلوچوں نے 1962 سے "پنجابی کو سرائیکی" بنانے کا مشن شروع کرکے اور خود بھی بلوچ کے بجائے "سرائیکی" کا روپ دھار کر پنجابیوں کو اور جنوبی پنجاب کو لوٹنا شروع کیا ھوا ھے۔ جنوبی پنجاب میں کردستانی بلوچ "سرائیکی سازش" کر رھے ھیں۔ جنوبی پنجاب میں بلوچوں نے چونکہ انگریزوں سے بڑی بڑی جاگیریں حاصل کی ھوئی تھیں۔ اس لیے جاگیرداری کی وجہ سے بلوچوں نے جنوبی پنجاب میں پنجابیوں پر اپنی سماجی ' سیاسی و معاشی بالادستی قائم کی ھوئی ھے۔

جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کو سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی طور پر مظبوط کرکے بلوچوں کے ظلم و ستم اور بدمعاشی سے نجات دلوائی جائے۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں بلوچوں ' پٹھانوں اور عربی نژادوں کی جاگیریں ضبط کرلی جائیں اور دریا کے کنارے پر جنگلات کی زمین پر سے بلوچوں ' پٹھانوں اور عربی نژادوں کا قبضہ ختم کروا دیا جائے تو جنوبی پنجاب میں "سرائیکی دیش" کی سازش خود بخود ختم ھوجائے گی۔

بلوچوں کے ظلم و ستم اور بدمعاشی کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کا حال رامؔش قادری نے اس طرح بیان کیا ھے؛

اساں کئی نسلیں توں نوکر ھاں - ساڈے گل پٹہ سرداری دا

اساں پالتو کتے کھوسے دے - ساڈے دل وچ خوف لغاری دا

اساں پٹھو خان دریشک دے - ساڈا ذھن غلام مزاری دا

اساں رامؔش ایویں رُل مرنے - کوئی حل نئیں ایں بیماری دا

وسطی پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب صوبہ سرحد کے پٹھان علاقوں میں رھنے والے اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں روزگار کے لیے آئے ھوئے پٹھانوں سے "پشتونستان" کی آواز سنتے ھیں کہ؛

پٹھان صوبہ سرحد کو پاکستان سے الگ کرکے "آزاد پشتونستان" بنائیں گے۔ تو سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا ھوکر پٹھانوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛

وہ پنجابی قوم کو ذلیل و خوار اور بلیک میل کرتے رھیں اور صوبہ سرحد پر قابض رہ کر صوبہ سرحد میں رھنے والے ھندکو پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں ' کوھستانیوں ' چترالیوں ' سواتیوں ' بونیریوں پر سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی قائم کیے رھیں۔ پنجابیوں کی تذلیل و توھین کرتے رھیں۔ پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان پر بھی قابض ھوتے رھیں۔ پاکستان پر حکومت بھی کرتے رھیں لیکن پاکستان سے الگ نہ ھوں۔

سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ صوبہ سرحد اصل میں ھندکو پنجابیوں اور ڈیرہ والی پنجابیوں کا علاقہ ھے اور کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری بھی صوبہ سرحد میں رھتے ھیں۔ لیکن افغانستان سے آکر پٹھانوں نے پنجابیوں کے علاقے پر قبضہ کیا ھوا ھے۔ بلکہ پٹھانوں نے 1901 میں انگریز سے پنجاب کے علاقوں ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کروا کر شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے الگ صوبہ بھی بنوا لیا تھا۔

شمال مغربی سرحدی صوبہ کو 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔ لیکن 2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا نام خیبر پختونخوا کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے سے ھی اس صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے افغانی آآ کر اور پختون بن بن کر قبضہ کرتے رھے ھیں۔

خیبرپختونخوا صوبہ میں پشتو کے علاوہ 24 زبانیں بولی جاتی ھیں اوریہ ساری زبانیں یہاں کی تاریخی اور آبائی زبانیں ھیں۔ مرکزی پشاور اور ھزارہ میں ھندکو پنجابی بولی جاتی ھے۔ جنوبی ضلعوں میں ڈیرہ والی پنجابی بولی جاتی ھے۔ چترال میں کھوار کے ساتھ ساتھ 11 اور زبانیں کلاشا ' پالولا ' گوارباتی ' دمیلی ' یدغا ' شیخانی وغیرہ بولی جاتی ھیں۔ ضلع کوھستان میں کوھستانی اور شینا زبانیں بولی جاتی ھیں۔ سوات کے کوھستان میں توروالی ' گاؤری اور اوشوجو بولی جاتی ھے۔ دیر کوھستان میں کلکوٹی اور گاؤری زبانیں بولی جاتی ھیں۔ لیکن انہیں 2017 میں ھونے والی مردم شماری میں زبردستی پشتو بولنے والا شمار کیا گیا ھے۔ خیبر پختونخوا کی 3 کروڑ 5 لاکھ آبادی میں خیبر پختونخوا کے تاریخی اور قدیمی باشندے ھندکو پنجابی کو 35 لاکھ ' ڈیرہ والی پنجابی کو 11 لاکھ 35 ھزار شمار کیا گیا ھے۔ اردو بولنے والے 2 لاکھ 75 ھزار جبکہ پنجابی بولنے والے صرف 27 ھزار شمار کیے گئے ھیں۔

صوبہ سرحد کے پنجابی قوم کا تاریخی علاقہ ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کا فرض بنتا ھے کہ؛ ھندکو پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں ' کوھستانیوں ' چترالیوں ' سواتیوں ' بونیریوں کو پٹھانوں کی سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی سے نجات دلوائے۔ اس سے نہ صرف پنجابی قوم کے تاریخی علاقے پر سے پٹھانوں کا تسلط ختم ھوگا۔ بلکہ پٹھانوں کی طرف سے آزاد پشتونستان کی سازش کرکے سیاسی شعور سے عاری پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کی سازش بھی ختم ھوجائے گی۔ اس کے علاوہ پٹھانوں سے کہا جائے کہ؛ فاٹا کے علاقے کو پشتونستان بنانا ھے یا نہیں بنانا؟ یہ بعد میں طے کیا جائے۔ پہلے پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا میں موجود پٹھانوں کو فاٹا منتقل کیا جائے۔ کیونکہ پشتونستان کے قیام کے بعد پٹھانوں کو پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا میں رھنے کا حق نہیں ھوگا۔ لیکن پٹھان چونکہ بنیادی طور پر قبضہ گیر ھیں۔ اس لیے پشتونستان کے قیام کے بعد پٹھانوں نے پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا میں سے نکلنے سے انکار کر دینا ھے۔

پاکستان میں قوموں کے درمیان محاذآرائی کا حل کیا ھے؟

پاکستان میں پٹھان قوم ' بلوچ قوم ' ھندوستانی مھاجر قوم کے اور پنجابی قوم کے درمیان محاذآرائی کا حل نکالا جاسکتا ھے۔ اگر ھر قوم بتا دے کہ؛

اسے پاکستان کے کس علاقے میں کس قوم سے یہ شکایات ھیں؛

سماجی شکایات
1۔ مقامی سطح پر سماجی شکایات
2۔ صوبائی سطح پر سماجی شکایات
3۔ قومی سطح پر سماجی شکایات

معاشی شکایات
1۔ مقامی سطح پر معاشی شکایات
2۔ صوبائی سطح پر معاشی شکایات
3۔ قومی سطح پر معاشی شکایات

انتظامی شکایات
1۔ مقامی سطح پر انتظامی شکایات
2۔ صوبائی سطح پر انتظامی شکایات
3۔ قومی سطح پر انتظامی شکایت

اقتصادی شکایات
1۔ مقامی سطح پر اقتصادی شکایات
2۔ صوبائی سطح پر اقتصادی شکایات
3۔ قومی سطح پر اقتصادی شکایات

پنجابی زبان کا "ھندکو" لہجہ

پنجابی زبان کے ھندکو لہجے کا علاقہ شمال مغرب کی طرف سے ماجھی لہجے کے علاقے سے منسلک ھے۔ جوکہ صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک اور خیبر پختونخوا کے اضلاع ایبٹ آباد ' مانسہرہ ' ھری پور ' بٹگرام ' نوشہرہ ’ پشاور ' کوھاٹ پر مشتمل ھے. جبکہ ھندکو لہجہ پوٹھوھار اور آزاد کشمیر کے علاقوں پونچھ ' باغ ' نیلم ' مظفر آباد وغیرہ میں بھی بولا جاتا ھے۔ ھندکو لہجہ شمالی ھندوستان اور افغانستان کے ھندکی علاقوں میں بھی بولا اور سمجھا جاتا ھے۔

ھندکو بولنے والے ھندکوان کہلاتے ھیں۔ لیکن ھزارہ ڈویژن کے علاقوں ھری پور' ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں انہیں ھزارہ ڈویژن کی نسبت سے ھزارے وال پکارا جاتا ھے۔ پشاور شہر میں اس زبان کو بولنے والوں کو پشاوری یا خارے کے نام سے پکارا جاتا ھے جس کا مطلب پشاور شہر کے آبائی ھندکوان لیا جاتا ھے۔ کہا جاتا ھے کہ پاکستان آزاد ھونے سے پہلے ریاست امب پر تنولی قبیلہ کی حکمرانی تھی اور ھندکو یہاں پر سو فیصد بولی جاتی تھی۔ ابھی بھی خیبرپختونخوا میں ھندکو بولنے والا سب سے بڑا قبیلہ تنولی ھے۔

ھندکو لفظ کا لفظی مطلب ھند کے پہاڑوں کا ھے۔ یہ نام فارس کے علاقوں میں تمام ھمالیہ کے سلسلے کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔ فارسی زبان کے تحت لفظ "ھند" کا مطلب دریائے سندھ سے متعلق علاقوں اور "کو" سے مراد پہاڑ لی جاتی ھے۔ ھندکو کو اسی تناسب سے ھندوستان کی زبان سے موسوم کیا جاتا ھے۔ ھندکو کی اصطلاح قدیم یونانی علمی حلقوں میں بھی پائی جاتی رھی ھے۔ جس سے مراد حالیہ شمالی پاکستان اور مشرقی افغانستان کے پہاڑی سلسلے لیے جاتے ھیں۔ 1920ء میں ماھر لسانیات گریسن نے ھندکو کو مغربی پنجابی (لہندا) کا ایک لہجہ کہا۔ ھندکو لہجے کو ایک الگ زُبان ھونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ھے۔ جو صحیح نہیں ھے۔ ھندکو کے 3 ذیلی لہجے ھیں۔

1۔ سوائیں پنجابی لہجہ

سوائیں لہجہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے ھندکو کا ذیلی لہجہ ھے۔ یہ لہجہ زیادہ تر پنجاب کے مرکزی علاقے ماجھے سے شمال مغرب کی طرف پنجاب کے سرے کے علاقے ضلع اٹک کی وادی سواں میں بولا جاتا ھے۔ سوائیں لہجہ کا نام وادی سواں کی مناسبت سے ھے۔ یہ وادی دریائے سواں کے شمال میں واقع ھے۔ اس وادی میں کثیر تعداد میں ندیاں اور نالے بہتے ھیں جو تمام کے تما م دریائے سوان میں شامل ھو جاتے ھیں۔ ان ندی نالوں کی وجہ سے یہاں کی زمین کٹی پھٹی اور نا ہموار ھے۔ ھموار اور قابل کاشت اراضی بہت کم ھے۔

2۔ پشوری/پشاوری پنجابی لہجہ

پشوری/پشاوری لہجہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے ھندکو کا ذیلی لہجہ ھے۔ یہ لہجہ زیادہ تر پنجاب کے مرکزی علاقے ماجھے سے شمال مغرب کی طرف پنجاب کے سرے کے علاقے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں بولا جاتا ھے۔ پشاور شہر میں اس زبان کو بولنے والوں کو پشاوری یا خارے کے نام سے پکارا جاتا ھے جس کا مطلب پشاور شہر کے آبائی ھندکوان لیا جاتا ھے۔

3۔ کوھاٹی پنجابی لہجہ

کوھاٹی لہجہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے ھندکو کا ذیلی لہجہ ھے۔ یہ لہجہ زیادہ تر پنجاب کے مرکزی علاقے ماجھے سے شمال مغرب کی طرف پنجاب کے سرے کے علاقے خیبر پختونخوا کے ضلع کوھاٹ میں بولا جاتا ھے۔ کوھاٹ شہر میں اس زبان کو بولنے والوں کو کوھاٹی کے نام سے پکارا جاتا ھے جس کا مطلب کوھاٹ شہر کے آبائی ھندکوان لیا جاتا ھے۔

لاھور قراداد پر عمل کیوں نہیں ھوا؟

لاھور میں 23 مارچ 1940 کو "آل انڈیا مسلم لیگ" کے ھونے والے کنوینشن میں لاھور قرارد پاس کی گئی تھی۔

لاھور قراداد میں پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات نہیں تھی۔ جبکہ پاکستان کا نام لاھور قراداد نے تجویز نہیں کیا تھا۔ بلکہ پہلے سے ھی "چوھدری رحمت علی" کا 1933 میں تجویز کیا ھوا تھا۔

چوھدری رحمت علی کے تجویز کردہ "پاکستان" میں پنجاب (بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے علاقے تھے۔

بنگال کے لیے "بنگستان" کے نام سے الگ ملک اور بھارت کے مسلمانوں کے لیے "عثمانستان" کے نام سے ایک الگ ملک کی تجویز تھی۔

لاھور میں 23 مارچ 1940 کو "آل انڈیا مسلم لیگ" کے کنوینشن نے چوھدری رحمت علی کے تجویز کردہ "پاکستان" کو شق نمبر 3 اور 4 میں اس طرح منظور کیا تھا؛

شق نمبر 3۔ قرار پایا ھے کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا مسلمہ نقطۂ نظر ھے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابلِ قبول نہیں ھو گا ' جب تک وہ ذیل کے بنیادی اصول پر وضع نہیں کیا جائے گا۔ وہ یہ کہ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ' ان کو "آزاد ریاستوں" میں گروہ بند کر دیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں "مکمل آزاد اور خودمختار" ھوں گی۔

شق نمبر 4۔ یہ کہ ان "اکائیوں میں موجود خطوں" کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں؛ اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔

سوالات یہ ھیں کہ؛

1۔ لاھور قراداد پر کس نے عمل نہیں کیا؟

2۔ بنگال اور بنگالی قوم کو تقسیم کروا کر مشرقی بنگال کو پاکستان میں کس نے اور کیوں شامل کروایا؟

3۔ کشمیر کو پاکستان میں کس نے اور کیوں شامل نہیں ھونے دیا؟

4۔ پنجاب اور پنجابی قوم کو کس نے اور کیوں تقسیم کیا؟

5۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی کیوں اور کس نے مروائے؟

6۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 2 کروڑ پنجابی کس نے اور کیوں بے گھر کروائے؟

7۔ ھندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں کون اور کیوں لایا؟

سندھ کے وسائل کو "پنجابی لٹیروں" سے بچانے کا طریقہ کیا ھے؟

دیہی سندھ کے سندھی بولنے والے سماٹ ' بلوچ اور عربی نژاد کی طرف سے صبح نیند سے بیدار ھوتے ھی گلہ ' شکوہ اور شکایات شروع کردی جاتی ھیں کہ؛ پنجاب کی طرف سے سندھ کے وسائل لوٹے جا رھے ھیں۔ پنجابی لٹیرے ھیں۔ پنجابیوں نے سندھ لوٹ لی ھے۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کراچی میں رھتے ھیں۔ سندھی بولنے والے سماٹ ' بلوچ اور عربی نژاد دیہی سندھ میں رھتے ھیں۔ اس لیے دیہی سندھ کے سندھی بولنے والے سماٹ ' بلوچ اور عربی نژاد کراچی کو اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو دے دیں۔ سندھی بولنے والے سماٹ ' بلوچ اور عربی نژاد خود دیہی سندھ سمبھال لیں۔

ایسا کرنے سے اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں میں باھمی پیار و محبت ھو جائے گی۔ ایک طاقت بھی بن جائیں گے۔ اس لیے پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف متحد ھوجائیں گے۔ پنجابی پھر سندھ کے وسائل نہیں لوٹ سکیں گے۔

ویسے آج تک یہ معلوم نہیں ھوسکا ھے کہ؛ وہ وسائل کون سے ھیں جنہیں پنجابی لوٹ رھے ھیں؟ لٹیرے تو دیہی سندھ کے سندھی بولنے والے سماٹ ' بلوچ اور عربی نژاد ھیں۔

دیہی سندھ کے سندھی بولنے والے سماٹ ' بلوچ اور عربی نژاد؛

1۔ ایک تو کراچی پر قابض ھوکر حکمرانی کر رھے ھیں اور کراچی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو ھی نہیں بلکہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' پٹھان ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کو بھی تیسرے درجے کا شھری بنایا ھوا ھے۔

2۔ دوسرا کراچی کی آمدنی لوٹ کر دیہی سندھ پر خرچ کرتے ھیں۔

3۔ تیسرا 1901 اور 1932 سے دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو سماجی ' سیاسی ' انتظامی حق نہیں دیتے اور دیہی سندھ کے پنجابیوں کو تیسرے درجے کا شھری بنایا ھوا ھے۔

4۔ چوتھا پنجاب کا پانی مفت میں استعمال کرکے پنجاب کے پانی پر پلتے بھی ھیں اور پنجاب کو گالیاں بھی دیتے ھیں۔

5۔ پانچواں پنجاب کو سندھ کے وسائل لوٹنے کا الزام لگا کر بلیک میل کرتے رھتے ھیں اور پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھتے ھیں۔

6۔ پنجابی قوم کو زبان کے لہجوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کر رھے ھیں اور پنجاب کو تقسیم کرکے جنوبی پنجاب میں رھنے والے بلوچوں ' پٹھانوں اور عربی نژادوں کو آشیرباد دے کر "سرائیکی صوبہ" بنانے کی مھم چلا رھے ھیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد بنگالیوں اور پنجابیوں کو حکمرانی سے کیسے محروم رکھا گیا؟

پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل سندھی جناح پونجا کے بیٹے محمد علی کو بنایا گیا اور وزیر اعظم یونائیٹڈ پروینس (حالیہ اترپردیش) کے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خان کو بنایا گیا۔ جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی قوم کی تھی۔ اس لیے پاکستان کا گورنر جنرل بنگالی بننا چاھیے تھا اور پاکستان کی دوسری بڑی آبادی پنجابی قوم کی ھونے کی وجہ سے وزیر اعظم پنجابی بننا چاھیے تھا۔

لیاقت علی خان کے دادا نواب احمد علی خان نے 1857 کی بغاوت کے دوران کرنال میں برطانوی فوج کو بروقت مدد فراھم کی تھی۔ (ماخذ- لیپل گرفن۔ پنجاب چیفس جلد ایک)۔ لیاقت علی خاں کے والد نواب رستم علی خان کو برطانوی حکومت نے رکن الدولہ ‘ شمشیر جنگ اور نواب بہادر کے خطاب دیے ھوئے تھے۔ لیاقت علی خان کے خاندان کے ساتھ برطانوی حکومت کے خصوصی تعلقات تھے اور برطانوی سرکاری افسران عمومی طور پر یونائیٹڈ پروینس (یوپی) کے دورے کے موقع پر مظفر نگر میں ان کی بڑی اور وسیع حویلی میں تشریف لاتے تھے۔

انگریز نے جب 1947 میں پاکستان بنایا تو اپنے وفادار لیاقت علی خان کو پاکستان کا وزیر اعظم بنوا دیا۔ اپنے وفادار جاگیرداروں ' راجوں ' نوابوں کو پاکستان کے اقتدار پر مسلط کرگئے۔ انگریز نے پنجابیوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کا وزیر اعلی بھی اپنے وفادار پٹھان نواب افتخار حسین ممدوٹ کو بنوا دیا۔ لیکن پنجاب اسمبلی میں چونکہ پنجابی ایم پی اے بہت زیادہ تھے۔ اس لیے لیاقت علی خان نے 1949 میں پنجاب اسمبلی برخاست کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرکے پنجابی ایم پی ایز کو فارغ کردیا اور پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر بنایا دیا۔ تاکہ پنجابی قوم کو پٹھان کنٹرول کرتے رھیں۔ جبکہ دوسری قوموں کو پنجابیوں کو گالیاں دینے اور ذلیل و خوار کرنے پر لگا دیا جائے۔