Tuesday 23 June 2020

آئیے ذرا پنجابی بن کر سوچیں تحریر: ظفر عمران

سندھ دریا جہاں جہاں سے گزرتا ہے، اس کے پانیوں سے سیراب ہونے والی تہذیب کو سندھی تہذیب یا انڈس ویلی سولائزیشن کہا جاتا ہے۔ یہاں آباد قبیلے سندھی ہیں۔ اب آپ ذرا سا کشٹ اٹھائیے اور نقشہ دیکھیے کہ دریائے سندھ کا روٹ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اہل فارس نے اس سندھ کو ہند کہنا شروع کر دیا۔ اس نسبت سے جو بھی ہند سے ہوا، ہندی کہلایا۔ سکندر یونانی (مقدونی) کے ساتھ آئے پرچا نویسوں نے اسے انڈس لکھا، اسی سے انڈیا ہوا۔ مغلوں نے اسے ہندستان کر دیا۔

حال آں کہ گنگا جمنا دریاؤں کی تہذیب سندھی تہذیب سے یک سر مختلف ہے، لیکن اسے بھی ہندستان نامی ملک میں شامل کر کے، ہندستان کا نام دیا گیا۔ ہندستان پر انگریز سرکار آئی تو اس نے سارے انڈیا میں سیاسی و انتظامی تبدیلیاں کیں۔ پانچ بڑے دریاؤں کی سرزمین جو سندھی تہذیب کا حصہ ہے، اسے اہل فارس پنج آبہ کے نام سے پکارتے، جو پنجاب کہلانے لگا۔

پنجاب کی سرحدیں مختلف ادوار میں تبدیل ہوتی رہیں۔ راجا رنجیت سنگھ کے دور میں اس کی سرحد گلگت، جموں، پشاور جیسے علاقوں تک تھیں۔ ثقافتی طور پر دیکھا جائے تو گلگت، پشاور کی تہذیب اور پنج آبے کی تہذیبیں مختلف ہیں۔ اسی طرح موجودہ ہندستان نامی ملک کا دریائے سندھ یا اس کی تہذیب سے اتنا ہی واسطہ ہے، کہ شمال میں چند سو میٹر یا کلومیٹر بھارت کی سرحد میں سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔

دریائے ہند یعنی سندھ کی تہذیب کے وارث پاکستان میں ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے، جسے فارس والوں نے ہند کہا۔ تو یہ واضح ہو، کہ پنج آبہ دریائے سندھ کی تہذیب ہے۔ پنج آبے کی دھرتی پر کئی قبائل بستے ہیں؛ اکثریت کا تعلق کاشت کاری کے پیشے سے ہے، جو دُنیا کے قدیم پیشوں میں سے ایک ہے۔ موجودہ پنجاب کے شمال کی طرف بڑھیں، تو بارانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے، لہذا کاشت کاری اس طرح نفع بخش نہیں رہتی، جیسے دریاؤں یا زیر زمین پانی پر انحصار کر کے آسانیاں ہیں۔ اس لیے یہاں کے لوگ دیگر پیشوں جیسا کہ فوج میں‌ جانے کو فوقیت دیتے رہے۔

صدیوں کا چکر ہے، آرین سے لے کر نادر شاہ وغیرہ سبھی شمال سے حملہ آور ہوتے رہے، اور پنج آبے کے کسانوں سے خراج لے کر جنوبی ہند کی طرف بڑھ گئے۔ جہاں جہاں سے سونا چاندی مال متاع حاصل ہوا، لے کر چلتے بنے۔ ان میں سے آرین اور مغلوں نے یہیں ٹھیرنے کو ترجیح دی۔ بیرونی حملہ آوروں کے ہم راہ عموما کرائے کی افواج ہوتیں، کابل دُنیا بھر سے آئے کرائے کے سپاہیوں کی منڈی رہی ہے۔ سکندر نے ہندستان پر حملہ کرتے یہیں سے کرائے کے فوجی بھرتی کیے۔

پاکستانی پختون پٹی، اور افغانستان کی پختون پٹی اسلحے کے کارخانوں کا علاقہ رہا ہے۔ جس کی جیب میں رقم ہے، وہ جائے اور خرید لائے۔ آج تک یہ انگریز تھا، جس نے رنجیت سنگھ کو شکست دے کر پشاور اور اس کے ملکیتی علاقوں پر قبضہ کیا، پھر افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں جنھیں انگریز ہی کی طرح لٹیرا کہنا زیادہ مناسب ہے، سے معاہدہ کیا، کہ جو علاقہ اُن کے زیر نگیں ہے، اس کا انتظام وہ دیکھیں، جو اِن کے تسلط میں ہے، وہ اِن کا ہوا۔ مزید یہ کہ متحدہ ہندُستان کی سب سے بڑی چھاؤنی راول پنڈی کینٹ کی بنیاد پڑی، تا کہ شمال سے آنے والوں کو اس مقام سے آگے نہ بڑھنے دیا جا سکے، اور مرکزی ہندستان کا نظم و نسق متاثر نہ ہوا۔

انگریز کے افغانستان سے معاہدے سے پہلے سندھ جس میں پنج آبہ بھی شامل ہے، کو لوٹنے والے یہیں سے آتے رہے، انھی کی مدد سے آتے رہے۔ کسان اپنی فصلوں کا خراج دیتے آئے، اور کسان تو کسان تھے، سپاہی نہیں، کہ لٹیروں کا مقابلہ کرتے۔ پرانے زمانے میں دریا گزرگاہیں تھیں، تجارت کرنے والے بھی انھی راستوں سے گزرے۔ برسوں سے آتے جاتے تاجروں اور لٹیروں کے حملوں نے سندھ تہذیب پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ پنج آبہ براہ راست متاثر ہوا۔ یہ مرکزی گزرگاہ پہ آتا تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا، کہ شمال سے آنے والا پنج آبے سےگزر کر نہ جائے؛ یا لوٹتے ہوئے وہ یہاں سے نہ گزرے۔ ایک سکندر نے ایسا کیا، کہ اپنی افواج کو بلوچستان کے بے آب اور بنجر راستے سے ایران پہنچنے کی ہدایت کی۔ کہتے ہیں، وہ اپنی باغی فوج کو سزا دینا چاہتا تھا۔

تواریخ بتاتی ہیں، کہ کسانوں نے حملہ آوروں کی راہ میں کبھی مزاحمت نہ کی، یا کی بھی تو اتنی کم زور جس سے پیشہ ور فوجی کو روکا نہ جا سکتا تھا۔ انگریز کو جانا پڑا، تو ہندستان نامی ملک کی تقسیم ہوئی۔ دریائے سندھ کے علاقے کے علاوہ وہ پختون علاقے جو رنجیت سنگھ کی ملکیت سے انگریز کی عمل داری میں آئے، اور بلوچستان یہ پاکستان میں شامل ہوگئے۔ دریائے سندھ کی تہذیب سے ان کا اتنا ہی واسطہ تھا، جتنا بھارت نامی ملک کا۔ پیداواری علاقے وہی تھے جہاں سے دریا گزرتے تھے۔ ان میں پنج آبہ یا پنجاب بھی شامل ہے۔

اتنے حملوں لوٹ کھسوٹ‌ کے باوجود دریاؤں پر انحصار کرنے والا خطہ خوش حال ہی رہا۔ نہ تو اس وقت مشرقی پاکستان کی پٹ سن لوٹ کر یہاں‌لائی جاتی تھی، نہ سوئی کے مقام سے گیس نکلی تھی، نہ تربیلا ڈیم کی بجلی تھی۔ نہ انگریز نے کراچی پورٹ بنائی تھی۔ پنجابی تو اتنے امن پسند رہے، کہ اپنی زبان، اپنے لباس، اپنی تہذیب میں ہر پیوند لگنے دیا۔ آج بھی پنجاب کے اسکولوں میں پنجابی نہیں پڑھائی جاتی۔ بنگالی اور کشمیریوں ہی نے نہیں پنجابیوں نے بھی مذہب کے نام پر تقسیم کا وار سہا۔ کوئی عرب تھا، گیلانی، افغانی، کشمیری ہذا القیاس؛ پنجاب کے دروازے پنجاب کے دل ہر غیر پنجابی کے لیے کھلے رہے۔

آج صوبہ سندھ تک محدود ہو جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو پہلے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ، اور نشستیں پنجاب ہی سے حاصل ہوئی تھیں۔ موجودہ وزیراعظم کے اجداد کشمیری ہیں، لیکن پنجاب نے انھیں کبھی یہ کہ کر رد نہیں کیا، کہ وہ پنجابی نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو پختون کہلوانے میں فخر محسوس کرنے والے عمران خان کو پنجابیوں نے ووٹ دیتے کبھی یہ سوچا، کہ وہ پنجابی نہیں ہیں؟ ایچی سن کالج لاہور، پنجاب سے تعلیم یافتہ پرویز خٹک کو اس لیے وہاں‌ داخلہ نہ ملا، کہ وہ غیر پنجابی ہیں؟

ایچیسونین پرویز خٹک فرماتے ہیں، پنجاب پولِس نے انھیں پنجاب میں داخلے سے روک دیا، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم علاحدگی کی طرف بڑھیں۔ خٹک صاحب نے مجبور کیا، تو سوچا، ہم ذرا پنجابی بن کر سوچتے ہیں، اور پنجابی بن کر جواب دیتے ہیں۔ جناب آپ کے پختون بھائی عمران خان کو اقتدار کی ہوس چین نہیں لینے دے رہی، اور آپ ہی کے بقول آپ لاکھوں کا قافلہ لے کر پنجاب پر حملہ آور ہونے چلے ہیں، تو یہ معمولی مزاحمتیں ایسی ناگوار ہوئی، کہ آپ پاکستان سے لاتعلقی کا اعلان کرنے چلے؟ پنجابیوں نے آپ کے اجداد کے ہزاروں حملے سہے ہیں، ایک آدھ روکنا چاہا تو اس پر اتنی برہمی کیوں؟

آپ ہی کے قائد ایک پختون عمران خان کی زبان میں اسے بےشرمی کہا جائےگا، کہ آپ اپنی ہوس کی تکمیل میں رکاوٹ آنے پر، پاکستانی سے پختون بننے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے۔ دیکھیے جناب! برصغیر کی تقسیم کے وقت ہمارے بڑوں نے یہ عہد کیا تھا، کہ ہمیں پاکستانی بن کر رہنا ہے۔ اگر آج ہم یہ محسوس کرتے ہیں، کہ ہمارے لیے بلوچی، پنجابی، سندھی، پختون، کشمیری بن کر رہنا افضل ہے، تو ٹھیک ہے، ایسا ہی کیجیے، لیکن پنجاب کی طرف انگلی اٹھانا بند کیجیے، کہ پنجاب کو ہمیشہ آپ ہی کے گھر سے آنے والوں‌ نے لوٹا۔

پاکستان کل کی بات ہے، پنجاب کی ترقی کا سفر پاکستان بننے کے بعد نہیں شروع ہوتا۔ پنجاب اِن کل کے منصوبوں سوئی گیس، تربیلا ڈیم، اور آنے والے کل کے گوادر کا محتاج نہ تھا، نہ ہے۔ یہ پاکستان کے منصوبے ہیں، ہر پاکستانی کا ان پہ حق ہے۔ برسوں میں آپ اپنے سرداروں کے چنگل سے نہ نکل سکے، تو اس میں پنجاب کا دوش نہیں۔ پنج آبے کی دھرتی پر بسنے والوں نے اپنے سینے پر بہت زخم کھائے ہیں، پھر بھی سب کو اپنے سر کا تاج کیا۔ اگر زمین ہی کا جھگڑا ہے، تو پنجاب کی گزرگاہوں کے بنا گوادر ایک مہمل منصوبہ ہے۔ اور پھر سوئی کی گیس پنجاب کو خیرات میں نہیں دی جاتی۔ تربیلا کی بجلی کی رائلٹی پنجاب کو نہیں ملتی۔ بندرگاہ پر اترنے والے پنجابی تاجر کے مال کو کرائے اور محصول میں چھوٹ نہیں ہے۔

آپ کہیے یہ بات پنجابیوں نے نہیں سہی کہ کالا باغ ڈیم اس لیے نہیں بننے دیں گے، کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو ہوتا ہے؟ پنج آبے کی زمین سونا اگلنے والی ہیں، اسے کسی اور کی زمیں کے نیچے بہتے سونے سے کوئی مطلب نہیں، وہ بھی جو ابھی نکالا ہی نہیں گیا۔ جناب سدا سے پنجابیوں کو لوٹ لوٹ کر اور پنجاب سے فیض یاب ہو کر، پنجابی کو گالی دینا بند کیجیے۔ پنجابیوں کے بہت سے جرم ہوں گے، ایسے ہی جیسے غیر پنجابی کے جرائم ہیں، لیکن پنجابی پر تعصب کا الزام لگانا ناممکن ہے۔ سو یہ مت کہیے کہ پنجاب پولِس نے آپ کو اس لیے داخل نہیں ہونے دیا، کہ آپ غیر پنجابی ہیں۔

میری ان باتوں کا برا مانا گیا ہے، تو میرا جواب ہے، کہ آپ پاکستانی بن کر نہیں سوچ سکتے، تو دوسروں کو پنجابی بن کر سوچنے پر مجبور مت کیجیے۔ ورنہ ایسے ہی جواب آئیں گے، اور ایسے جوابات نفرت کے سوا کچھ نہ دیں گے۔ پاکستان زندہ باد۔

(ظفر عمران نے یہ مضمون 2016 میں لکھا۔ ظفر عمران تمثیل نگار، ہدایت کار، پروڈیوسر ہیں)

No comments:

Post a Comment