Monday 29 June 2020

پنجاب میں صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا اثر کم کیوں اور کیسے ھوا؟

پنجابی قوم پر بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باھو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش جیسے عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا بہٹ گہرا اثر تھا۔ اس لئے پنجابی قوم کا اخلاقی کردار بھی بہتر تھا اور پنجابی قوم کی روحانی نشو نما بھی ھوتی رھی۔ لحاظہ پنجابی قوم کا پس منظر روحانی ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم میں علم ' حکمت اور دانش کے خزانے تھے۔ لیکن پنجاب میں مغلوں کا دور شروع ھوتے ھی بابر کے خلاف بابا گرونانک اور اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی جدوجہد کی وجہ سے پنجاب میں مغلوں کے لیے پنجاب سمبھالنا مشکل ھوگیا تھا۔ اس لیے بابر کی بادشاھی کے دور سے ھی مغلوں نے افغانستان سے پٹھان لاکر پنجاب میں آباد کرنا شروع کیے ھوئے تھے۔ 1556 میں ھمایوں نے بھی بلوچوں کے رند قبیلے کے سردار چاکر خان رند کو قبیلے سمیت بلوچستان سے لاکر پنجاب میں آباد کیا اور اسکے بعد 1751 تک پنجاب پر مغلوں کا قبضہ رھا۔ مغل افغانستان سے پٹھان لاکر پنجاب کے مغربی علاقہ اور بلوچستان سے بلوچ لاکر پنجاب کے جنوبی علاقہ میں آباد کرتے رھے۔

1747 میں افغانستان کی سلطنت قائم کرنے کے بعد 1751 میں افغانستان سے آکر احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر قبضہ کرلیا جو کہ 1756 میں جالندھر دوآبہ کے حاکم ارائیں قبیلہ کے ادینہ بیگ خان نے ختم کروالیا اور پنجاب کا حاکم بن گیا لیکن ادینہ بیگ خان کے انتقال کے بعد 1762 میں افغانستان سے آکر احمد شاہ ابدالی نے پھر سے پنجاب پر قبضہ کرلیا۔ 1799 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے پنجاب کا اقتدار سمبھالنے تک پنجابیوں اور افغانستان کے پٹھانوں میں جنگیں ھوتی رھیں۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کا اقتدار سمبھال کر نہ صرف پنجاب پر سے پٹھانوں کا قبضہ ختم کروالیا بلکہ افغانستان کے پٹھانوں کو بھی دبا کر رکھا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد 1849 میں پنجاب پر انگریز کے قبضہ کے وقت انگریز نے پنجاب کے مشرق کی طرف سے انگریز فوج اور انگریز حکومت میں شامل کرکے اترپردیش کے اردو بولنے والے گنگا جمنا والے ھندوستانی پنجاب لانا شروع کردیے۔ اس لیے عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مغل حکمرانوں کی سرپرسی میں پہلے پٹھانوں اور بلوچوں کی سازشوں اور پھر انگریزوں کی حکمرانی کے دور میں اترپردیش کے گنگا جمنا والے ھندوستانیوں کی سیاست کا اثر بھی پنجاب کے لوگوں پر ھونے لگا۔

بلوچوں اور پٹھانوں کی اکثریت تو شروع سے ھی تعلیم کی طرف رحجان نہ ھونے کی وجہ سے جاھل اور گنوار تھی۔ اس لیے صوفی بزرگوں کی تعلیمات اور عظیم صوفی بزرگوں میں دلچسپی کے بجائے بلوچوں اور پٹھانوں کا شغل ھمیشہ سے دوسری قوموں کی زمین پر قبضہ کرکے ان قوموں کی زمین میں ظلم ' زیادتی ' بے ایمانی اور بد اخلاقی کو فروغ دینا رھا لیکن اترپردیش کے گنگا جمنا والے ھندوستانی چونکہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے پڑھے ھوئے تھے اس لیے اترپردیش کے گنگا جمنا والے ھندوستانیوں نے پنجاب میں صوفی بزرگوں کی تعلیمات کی جگہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفے کی تبلیغ کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر دین کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے اپنی دنیا اور آخِرَت سنوارنے کے بجائے اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھ دی۔ جسکی وجہ سے پنجاب میں دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کا فلسفہ فروغ پانے لگا اور عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا اثر کم ھونے لگا۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان ' جنہوں نے برطانوی راج کے دور سے ھی پنجاب کے بڑے بڑے شھروں ' خاص طور پر لاھور ' پنڈی اور ملتان پر قبضہ کرنا شروع کردیا تھا لیکن پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کے مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ھو جانے کی وجہ سے پاکستانی پنجاب کے بڑے بڑے شھروں کی اکثریتی آبادی بن گئے۔ پنجاب تقسیم نہ ھوتا۔ پنجاب میں سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کی نقل مکانی نہ ھوتی تو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پنجاب کے بڑے بڑے شھروں کی اکثریتی آبادی بننے کا موقع نہ ملتا۔ نہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کا فلسفہ پنجاب میں فروغ پاتا۔ نہ پنجاب میں صوفی درویشوں کی تعلیمات کا اثر پنجاب میں کم نظر آتا۔ بلکہ بلوچ اور پٹھان قبضہ گیروں کو بھی پنجابی سمبھال کر رکھتے۔

پنجاب کے صوفی بزرگوں کی تعلیمات چونکہ پنجابی زبان میں تھیں لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کی تعلیمات کو اردو زبان میں پنجاب لے کر آئے جبکہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کے پنجاب کے بڑے بڑے شھروں کی اکثریتی آبادی بن جانے کی وجہ سے پنجاب کی زبان بھی اردو ھونے لگی ' پنجاب کی ثقافت پر گنگا جمنا کی ثقافت حاوی ھونے لگی اور پنجابی رسم و رواج کی جگہ لکھنو کا رسم و رواج فروغ پانے لگا۔ اس لیے پنجاب میں نہ صرف صوفی بزرگوں کی تعلیمات پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفہ کا زیادہ غلبہ ھونا شروع ھوگیا بلکہ اردو زبان ' گنگا جمنا کی ثقافت اور لکھنو کے رسم و رواج کا بھی غلبہ ھونا شروع ھوگیا۔

دارالعلوم دیوبند کو 1866ء میں ' دار العلوم ندوۃ العلماء کو 1893ء میں اور بریلوی مدرسوں کو 1904ء میں برطانوی راج کے دوران اتر پردیش میں قائم کیا گیا تھا۔ ان مدرسوں میں درس و تدریس کا ذریعہ اردو زبان تھی۔ ان مدرسوں کے فلسفے کی تبلیغ کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر دین کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے اپنی دنیا اور آخِرَت سنوارنے کے بجائے اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی گئی تھی اور غیر اردو زبان بولنے والے مسلمانوں پر اردو زبان کا تسلط قائم کرنے کے لیے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا شروع کیا گیا تھا۔

پاکستان کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا۔ لیاقت علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر ' پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے شدید احتجاج کے باوجود ' اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیکر ' 25 جنوری 1949 کو پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر اپنی انتظامی گرفت مظبوط کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمان لاکر قابض کروا دیے۔ لحاظہ پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض ھوجانے والے یوپی ' سی پی والوں نے پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لانے کی راہ ھموار کرنا شروع کردی اور پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 1950 میں کئے گئے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں میں بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرکے زمینوں اور جائیدادوں پر بھی قبضے کروا نے شروع کردیے۔لحاظہ پاکستان کے قائم ھوتے ھی نہ صرف پاکستان میں اقرباء پروری ' بے ایمانی ' بد عنوانی اور قبضہ گیری کی بنیاد رکھ دی گئی بلکہ پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوجانے کی وجہ سے پنجاب میں پنجابی زبان کی جگہ اردو زبان ' پنجابی کی ثقافت کی جگہ گنگا جمنا کی ثقافت اور پنجابی رسم و رواج کی جگہ لکھنو کا رسم و رواج مزید فروغ پانے لگا۔ جبکہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفہ کو پنجاب میں مزید فروغ حاصل ھونا شروع ھوگیا۔ جس سے صوفی درویشوں کی تعلیمات کا اثر پنجاب میں مزید کم نظر آتا ھونا شروع ھوگیا۔

پنجاب میں خاص طور پر غیر تعلیم یافتہ ' کم تعلیم یافتہ ' زراعت سے وابسطہ ' پنجاب کے دیہی علاقوں میں رھنے والے اور پنجاب کے دیہی علاقوں سے وابسطہ پنجابی کا اب بھی پنجابی زبان ' پنجابی ثقافت ' پنجابی رسم و رواج اور صوفی درویشوں کی تعلیمات کی طرف رحجان ھے جبکہ بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باھو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش جیسے عظیم صوفی بزرگوں کی تعلیمات کا بہٹ گہرا اثر ھے۔ لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی پنجابی کا لبادہ اوڑہ کر اور خود کو پنجابی ظاھر کرکے پنجاب میں پنجابی زبان کی جگہ اردو زبان ' پنجابی ثقافت کی جگہ گنگا جمنا کی ثقافت ' پنجابی رسم و رواج کی جگہ لکھنو کے رسم و رواج اور صوفی درویشوں کی تعلیمات کی جگہ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفہ کو پنجاب میں فروغ دیتے رھتے ھیں۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی چونکہ پنجابی بھی بولتے ھیں ' اس لیے یہ اندازہ کرنا مشکل ھوجاتا ھے کہ وہ پنجابی ھیں یا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ھیں۔

No comments:

Post a Comment