پاکستان
میں پیٹرول کی روزانہ کھپت 12 کروڑ لیٹر ھے۔ لیکن پاکستان کی 60% آبادی اور صنعتی
و زرعی پیداوار زیادہ ھونے کی وجہ سے 8 کروڑ لیٹر پیٹرول کی روزانہ کھپت پنجاب میں
ھوتی ھے۔
پیٹرول
پر 50 روپے لیٹر ٹیکس ھونے کی وجہ سے روزانہ 4 ارب روپے ٹیکس وفاقی حکومت پنجاب سے
جمع کرتی ھے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کا ھیڈ آفس کراچی میں ھونے کی وجہ سے پنجاب سے جمع
ھونے والے ٹیکس کو کراچی میں جمع کیا جاتا ھے۔
پنجاب
میں صرف پیٹرول کی ھی کھپت سب سے زیادہ نہیں ھوتی۔ بلکہ روزمرہ استعمال کی ھر چیز
کی فروخت اور امپورٹ و ایکسپورٹ بھی سب سے زیادہ پنجاب میں ھوتی ھے۔ اس لیے سب سے
زیادہ فیڈرل ایکسائز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی پنجاب دیتا ھے۔
اسٹیٹ
بینک ' گورنمنٹ و پرائیویٹ کمپنیوں کے ھیڈ آفس کراچی میں ھونے کی وجہ سے پاکستان
بھر سے جمع کیے جانے والے فیڈرل ایکسائز ٹیکس جبکہ پاکستان بھر سے امپورٹ و
ایکسپورٹ کی جانے والی اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی بھی کراچی میں جمع کی جاتی ھے۔
کسٹم ڈیوٹی اور وفاقی ایکسائز ٹیکس سے جمع ھونے والی رقم کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت چاروں صوبوں میں تقسیم کردیا جاتا ھے۔ جبکہ تیل ' گیس ' کوئلہ اور معدنیات فروخت کرنے والے صوبوں کو رائلٹی بھی دی جاتی ھے۔ جبکہ پنجاب کی زرعی پیداوار دوسرے صوبوں کو فروخت کرنے کی رائلٹی پنجاب کو نہیں دی جاتی۔
اس
کے باوجود ھندوستانی مھاجر پنجاب کو گالیاں دیتے رھتے ھیں کہ؛ کراچی کماتا اور
پنجاب کھاتا ھے۔ جبکہ سندھی پنجاب کو گالیاں دیتے رھتے ھیں کہ؛ پنجاب سندھ کے
وسائل پیٹرول ' گیس ' کوئلہ کو لوٹ رھا ھے۔
کیا مناسب نہیں ھوگا کہ؛
1۔ صوبوں میں اشیاء کی پیداوار اور فروخت پر ایکسائز ٹیکس کو وفاقی حکومت کے بجائے صوبائی حکومتیں جمع کیا کریں۔
2۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی کو صوبوں میں بنائے گئے ڈرائی پورٹس یا صوبوں کی سرحد پر لیا جائے اور کراچی پورٹ پر صوبائی حکومت یا کراچی کی بلدیہ کی طرف سے صرف سروس چارجز لیے جائیں۔
3۔ صوبے اپنی ضرورت کی اشیاء بمعہ تیل ' گیس ' کوئلہ اور معدنیات بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے دوسرے صوبوں سے خرید کر صوبائی ٹیکس لگا کر فروخت کیا کریں۔ تاکہ وفاقی حکومت کسی صوبے کو رائلٹی نہ دے۔
4۔ وفاقی حکومت کے اخراجات کے لیے صوبے اپنی اپنی آمدن میں سے 50 فی صد یا طے شدہ رقم وفاق کو دے دیا کریں۔
5۔ صوبوں کی طرف سے اپنے اپنے صوبے میں کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ٹیکس کو جمع کرنے کی وجہ سے کراچی میں اسٹیٹ بینک اور وفاقی حکومت کے ٹیکس وصول کرنے والے دفاتر کی ضرورت نہیں رھے گی۔ اس لیے اسلام آباد منتقل کیے جاسکیں گے۔ جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں کے آفس کراچی کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی کھل جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment