بھارتی
خفیہ ایجنسی "را" بلوچستان میں "آزاد بلوچستان" کی سازش کر
رھی ھے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں رھنے والے بلوچ بھی اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے
لیے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کا راگ
الاپ کر اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم کرنے میں مصروف رھتے
ھیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی "آزاد بلوچستان" کی سازش
کے لیے آلہء کار بنتے ھیں۔ بلکہ سندھ میں رھنے والے بلوچ "سندھو دیش"
اور جنوبی پنجاب میں رھنے والے بلوچ "سرائیکی دیش" کا راگ بھی الاپتے
رھتے ھیں۔
جبکہ
بھارتی خفیہ ایجنسی "را" پٹھانوں کے ذریعے "پشتونستان" کی
سازش بھی کر رھی ھے۔ اس لیے صوبہ سرحد کے پٹھان علاقوں میں رھنے والے اور پاکستان
کے دوسرے علاقوں میں روزگار کے لیے آئے ھوئے پٹھان بھی اپنے ذاتی مفادات کے حصول
کے لیے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کا
راگ الاپ کر اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم کرنے میں مصروف
رھتے ھیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی "آزاد پشتونستان" کی
سازش کے لیے آلہء کار بنتے ھیں۔
وسطی
پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں
سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب "بلوچستان" سے بلوچوں کی آواز سنتے
ھیں کہ؛
بلوچ
بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے "آزاد بلوچستان" بنائیں گے۔ تو سیاسی
شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا
ھوکر بلوچوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛
وہ
پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھیں اور بلوچستان سے پنجابیوں کی لاشیں پنجاب
بھیجتے رھیں لیکن پاکستان سے الگ نہ ھوں۔
سیاسی
شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ بلوچستان اصل میں براھوئی قوم
کا علاقہ ھے اور کردستانی قبائل نے براھوئی قوم کی زمین پر 1486 میں قبضہ کیا تھا
اور بلوچ بننے کے بعد براھوئی کو بھی بلوچ قرار دے کر بلوچستان پر قابض ھیں۔
براھوئی
قوم کے پنجابی قوم کا تاریخی پڑوسی ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کا فرض بنتا ھے کہ؛
براھوئی قوم کو کردستانی بلوچ کے تسلط سے نجات دلوائے۔ اس سے نہ صرف پنجابی قوم کی
تاریخی پڑوسی قوم براھوئی کو کردستانی بلوچ قبائل کی سیاسی ' سماجی ' معاشی
بالادستی سے آزادی حاصل ھوگی۔ بلکہ بلوچوں کی طرف سے آزاد بلوچستان کی سازش کرکے
سیاسی شعور سے عاری پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کی سازش بھی ختم ھوجائے گی۔
وسطی
پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں
سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب "سندھ" سے بلوچوں اور عربی نژادوں کی
آواز سنتے ھیں کہ؛
بلوچ
اور عربی نژاد ' کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر سندھ کو
پاکستان سے الگ کرکے "سندھودیش" بنائیں گے تو سیاسی شعور سے عاری ان
پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا ھوکر بلوچوں اور
عربی نژادوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛
وہ
پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھیں۔ سندھ اور کراچی میں آباد پنجابیوں کو سماجی
' معاشی ' سیاسی ' انتظامی حقوق نہ دے کر دوسرے درجے کا شھری بنا کر رکھیں۔ بلکہ
سندھ اور کراچی سے پنجابیوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرکے سندھ اور کراچی
میں آباد پنجابیوں کو پنجاب بھیجتے رھیں لیکن پاکستان سے الگ نہ ھوں۔
سیاسی
شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ سندھ اصل میں سماٹ قوم کا علاقہ
ھے اور کردستانی قبائل نے سماٹ قوم کی زمین پر 1783 میں قبضہ کیا تھا۔ جبکہ
کردستانی قبائل سے پہلے عربی نژاد نے سماٹ کی زمین پر قبضہ کیا ھوا تھا۔ سندھ میں
بلوچ نژاد اور عربی نژاد اب سندھی قوم پرست بنے ھوئے ھیں۔ لیکن پاکستان کے قیام سے
پہلے بلوچ نژاد اور عربی نژاد ' سندھی قوم پرست نہیں بلکہ مسلمان قوم پرست تھے۔
مسلم جذبات کو اشتعال دے کر کے ھندو سندھیوں کو ' جو کہ سماٹ تھے ' بلیک میل کرتے
تھے۔
پاکستان
کے 1947 میں قیام کے بعد پاکستان کا وزیرِ اعظم یوپی کے اردو بولنے والے ھندوستانی
لیاقت علی خان کے بن جانے سے اور کراچی کے پاکستان کا دارالخلافہ بن جانے کے بعد
ستمبر 1948 میں پاکستان کی گورنمنٹ سروس میں انڈین امیگرنٹس کے لیے %15 اور کراچی
کے لیے %2 کوٹہ رکھ کر لیاقت علی خان نے یوپی ‘ سی پی سے اردو بولنے والے
ھندوستانی لا کر کراچی ' حیدرآباد ' سکھر ' میرپور خاص ' نواب شاہ اور سندھ کے
دوسرے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کر دیے اور ھندو سماٹ سندھیوں کو سندھ سے
نکالنا شروع کردیا۔ اس عمل کے دوران سندھ کے مسلمان سماٹ سندھیوں نے تو مزاھمت کی
لیکن بلوچ نژاد اور عربی نژاد اشرافیہ نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ بھرپور
تعاون کیا۔
سندھ
کے اصل باشندے ‘ سماٹ سندھی پہلے ھی اکثریت میں ھونے کے باوجود ‘ صدیوں سے بلوچ
نژاد اور عربی نژاد کی بالادستی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر کمتری کے احساس میں
مبتلا تھے۔ لیکن ھندو سماٹ سندھیوں کو سندھ سے نکال دینے سے سندھ میں سماٹ سندھیوں
کی آبادی بھی کم ھو گئی۔ جس کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں کراچی ' حیدرآباد '
سکھر ' میرپور خاص ' نواب شاہ پر یوپی ‘ سی پی کی اردو بولنے والی ھندوستانی
اشرافیہ کی اور سندھ کے دیہی علاقوں پر بلوچ نژاد اور عربی نژاد اشرافیہ کی مکمل
سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم ھو گئی اور سماٹ سندھی مستقل طور پر سماجی
' سیاسی اور معاشی بحران میں مبتلا ھو گئے۔
پاکستان
کے قیام کے بعد سندھ سے سماٹ ھندوؤں کو نکال کر ' ان کے گھروں ' زمینوں '
جائیدادوں اور کاروبار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ بلوچ نژاد اور عربی نژاد ' سندھی
قوم پرست بنے بیٹھے ھیں۔ یہ بلوچ نژاد اور عربی نژاد مسلمان سماٹ سندھیوں پر سماجی
' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی قائم کرنے کے بعد " سندھی قوم پرست
" بن کر سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے
کے ساتھ ساتھ " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بھی بلیک میل کرتے
رھتے ھیں اور سندھودیش کی سازش بھی کرتے رھتے ھیں۔
سماٹ
قوم کے پنجابی قوم کا تاریخی پڑوسی ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کا فرض بنتا ھے کہ؛
سماٹ قوم کو بلوچ نژاد اور عربی نژاد کے تسلط سے نجات دلوائے۔ اس سے نہ صرف پنجابی
قوم کی تاریخی پڑوسی قوم سماٹ کو بلوچ نژاد اور عربی نژاد کی سماجی ' معاشی '
سیاسی ' انتظامی بالادستی سے آزادی حاصل ھوگی۔ بلکہ بلوچ نژاد اور عربی نژاد کی
طرف سے سندھودیش کی سازش کرکے سیاسی شعور سے عاری پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کی
سازش بھی ختم ھوجائے گی۔
جبکہ
کراچی میں رھنے والے 50 لاکھ ھندوستانی مھاجروں کی "جناح پور" کی سازش
کو ختم کرنے اور "سندھو دیش" کی سازش کی حمایت کرنے کو غیر موثر بنانے
کے لیے کراچی میں رھنے والے 25 لاکھ پنجابی ' 25 لاکھ کشمیری ' گلگتی بلتستانی '
کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' 25 لاکھ گجراتی اور راجستھانی ' 15 لاکھ
سماٹ کو آپس میں متحد کرے۔
وسطی
پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں
سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب "جنوبی پنجاب" سے بلوچوں کی آواز سنتے
ھیں کہ؛
بلوچ
اپنے ساتھ جنوبی پنجاب کے عربی نژادوں اور پٹھانوں کو ملا کر جنوبی پنجاب کو
"سرائیکی دیش" بنائیں گے تو سیاسی شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے
چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا ھوکر بلوچوں کی منتیں کرنے لگتے
ھیں کہ؛
وہ
پنجابی قوم کو ذلیل و خوار کرتے رھیں لیکن جنوبی پنجاب کو "سرائیکی دیش"
نہ بنائیں۔
سیاسی
شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ جنوبی پنجاب اصل میں ڈیرہ والی
پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کا علاقہ ھے اور کردستانی بلوچوں نے
کردستان سے قبائل کی شکل میں آکر پہلے براھوئیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات
پر قبضہ کرلیا اور اسکے بعد براھوئیوں کو مکمل طور پر اپنے تسلط میں لانے کے بعد
موجودہ بلوچستان کہلوائے جانے والے علاقے پر قابض ھوگئے۔ پھر مغل بادشاہ ھمایوں نے
مغل بادشاہ بابر کے دور سے بابا نانک کی قیادت میں شروع کی جانے والی مغلوں کے
خلاف پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے 1555 میں کردستانی بلوچوں کو پنجاب
میں ساھیوال کے علاقے میں آباد کیا اور جاگیریں دیں۔ کیونکہ پنجابیوں کی مزاھمت کی
وجہ سے ھمایوں بادشاہ کو شیر شاہ سوری کے ھاتھوں اپنی بادشاھت سے ھاتھ دھونے پڑے
تھے۔ اس کے بعد ھمایوں کو برسوں در بدری کی زندگی گزارنی پڑی اور اس در بدری کے
دور میں ھی اکبر کی پیدائش ھوئی تھی جو بعد میں تاریخ کا اکبر اعظم بنا۔
مغل
بادشاہ اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی قیادت میں پنجابیوں کی مزاھمت کے تیز ھوجانے کی
وجہ سے مغلوں نے ڈیرہ غازی خان اور ارد گرد کے علاقے میں بھی کردستانی بلوچوں کو
بہت بڑی تعدا میں آباد کرنا شروع کردیا اور ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ اس طرح پنجاب
کے جنوبی علاقوں میں کردستانی بلوچوں کا قبضہ ھوگیا۔ 1783 میں عباسی کلھوڑا کے
ساتھ جنگ کرکے کردستانی بلوچوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا اور سندھ کے علاقے میں
جاگیریں بنانا شروع کردیں۔ اس طرح کردستانی بلوچ ' بلوچستان ' جنوبی پنجاب اور
سندھ پر قابض ھوکر بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے۔
جنوبی
پنجاب کے بلوچوں نے 1962 سے "پنجابی کو سرائیکی" بنانے کا مشن شروع کرکے
اور خود بھی بلوچ کے بجائے "سرائیکی" کا روپ دھار کر پنجابیوں کو اور
جنوبی پنجاب کو لوٹنا شروع کیا ھوا ھے۔ جنوبی پنجاب میں کردستانی بلوچ
"سرائیکی سازش" کر رھے ھیں۔ جنوبی پنجاب میں بلوچوں نے چونکہ انگریزوں
سے بڑی بڑی جاگیریں حاصل کی ھوئی تھیں۔ اس لیے جاگیرداری کی وجہ سے بلوچوں نے
جنوبی پنجاب میں پنجابیوں پر اپنی سماجی ' سیاسی و معاشی بالادستی قائم کی ھوئی
ھے۔
جنوبی
پنجاب میں پنجابیوں کو سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی طور پر مظبوط کرکے بلوچوں
کے ظلم و ستم اور بدمعاشی سے نجات دلوائی جائے۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں بلوچوں '
پٹھانوں اور عربی نژادوں کی جاگیریں ضبط کرلی جائیں اور دریا کے کنارے پر جنگلات
کی زمین پر سے بلوچوں ' پٹھانوں اور عربی نژادوں کا قبضہ ختم کروا دیا جائے تو
جنوبی پنجاب میں "سرائیکی دیش" کی سازش خود بخود ختم ھوجائے گی۔
بلوچوں
کے ظلم و ستم اور بدمعاشی کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کا حال رامؔش قادری
نے اس طرح بیان کیا ھے؛
اساں
کئی نسلیں توں نوکر ھاں - ساڈے گل پٹہ سرداری دا
اساں
پالتو کتے کھوسے دے - ساڈے دل وچ خوف لغاری دا
اساں
پٹھو خان دریشک دے - ساڈا ذھن غلام مزاری دا
اساں
رامؔش ایویں رُل مرنے - کوئی حل نئیں ایں بیماری دا
وسطی
پنجاب کے سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی سے وابسطہ وہ پنجابی جنہیں
سیاسی شعور نہیں ھے۔ وہ پنجابی جب صوبہ سرحد کے پٹھان علاقوں میں رھنے والے اور
پاکستان کے دوسرے علاقوں میں روزگار کے لیے آئے ھوئے پٹھانوں سے
"پشتونستان" کی آواز سنتے ھیں کہ؛
پٹھان
صوبہ سرحد کو پاکستان سے الگ کرکے "آزاد پشتونستان" بنائیں گے۔ تو سیاسی
شعور سے عاری ان پنجابیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں۔ وہ پنجابی خوف و ھراس میں مبتلا
ھوکر پٹھانوں کی منتیں کرنے لگتے ھیں کہ؛
وہ
پنجابی قوم کو ذلیل و خوار اور بلیک میل کرتے رھیں اور صوبہ سرحد پر قابض رہ کر
صوبہ سرحد میں رھنے والے ھندکو پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں ' کوھستانیوں '
چترالیوں ' سواتیوں ' بونیریوں پر سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی قائم
کیے رھیں۔ پنجابیوں کی تذلیل و توھین کرتے رھیں۔ پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان
پر بھی قابض ھوتے رھیں۔ پاکستان پر حکومت بھی کرتے رھیں لیکن پاکستان سے الگ نہ
ھوں۔
سیاسی
شعور سے عاری ان پنجابیوں کو معلوم ھی نہیں ھے کہ؛ صوبہ سرحد اصل میں ھندکو
پنجابیوں اور ڈیرہ والی پنجابیوں کا علاقہ ھے اور کوھستانی ' چترالی ' سواتی '
بونیری بھی صوبہ سرحد میں رھتے ھیں۔ لیکن افغانستان سے آکر پٹھانوں نے پنجابیوں کے
علاقے پر قبضہ کیا ھوا ھے۔ بلکہ پٹھانوں نے 1901 میں انگریز سے پنجاب کے علاقوں
ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ '
مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک '
کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کروا کر شمال مغربی
سرحدی صوبہ کے نام سے الگ صوبہ بھی بنوا لیا تھا۔
شمال
مغربی سرحدی صوبہ کو 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔
لیکن 2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان
پیپلز پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا
نام خیبر پختونخوا کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے
سے ھی اس صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے افغانی آآ کر اور
پختون بن بن کر قبضہ کرتے رھے ھیں۔
خیبرپختونخوا
صوبہ میں پشتو کے علاوہ 24 زبانیں بولی جاتی ھیں اوریہ ساری زبانیں یہاں کی تاریخی
اور آبائی زبانیں ھیں۔ مرکزی پشاور اور ھزارہ میں ھندکو پنجابی بولی جاتی ھے۔
جنوبی ضلعوں میں ڈیرہ والی پنجابی بولی جاتی ھے۔ چترال میں کھوار کے ساتھ ساتھ 11
اور زبانیں کلاشا ' پالولا ' گوارباتی ' دمیلی ' یدغا ' شیخانی وغیرہ بولی جاتی
ھیں۔ ضلع کوھستان میں کوھستانی اور شینا زبانیں بولی جاتی ھیں۔ سوات کے کوھستان
میں توروالی ' گاؤری اور اوشوجو بولی جاتی ھے۔ دیر کوھستان میں کلکوٹی اور گاؤری
زبانیں بولی جاتی ھیں۔ لیکن انہیں 2017 میں ھونے والی مردم شماری میں زبردستی پشتو
بولنے والا شمار کیا گیا ھے۔ خیبر پختونخوا کی 3 کروڑ 5 لاکھ آبادی میں خیبر
پختونخوا کے تاریخی اور قدیمی باشندے ھندکو پنجابی کو 35 لاکھ ' ڈیرہ والی پنجابی
کو 11 لاکھ 35 ھزار شمار کیا گیا ھے۔ اردو بولنے والے 2 لاکھ 75 ھزار جبکہ پنجابی
بولنے والے صرف 27 ھزار شمار کیے گئے ھیں۔
صوبہ
سرحد کے پنجابی قوم کا تاریخی علاقہ ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کا فرض بنتا ھے کہ؛
ھندکو پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں ' کوھستانیوں ' چترالیوں ' سواتیوں '
بونیریوں کو پٹھانوں کی سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی سے نجات دلوائے۔
اس سے نہ صرف پنجابی قوم کے تاریخی علاقے پر سے پٹھانوں کا تسلط ختم ھوگا۔ بلکہ
پٹھانوں کی طرف سے آزاد پشتونستان کی سازش کرکے سیاسی شعور سے عاری پنجابیوں کو
بلیک میل کرنے کی سازش بھی ختم ھوجائے گی۔ اس کے علاوہ پٹھانوں سے کہا جائے کہ؛
فاٹا کے علاقے کو پشتونستان بنانا ھے یا نہیں بنانا؟ یہ بعد میں طے کیا جائے۔ پہلے
پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا میں موجود پٹھانوں کو فاٹا منتقل
کیا جائے۔ کیونکہ پشتونستان کے قیام کے بعد پٹھانوں کو پنجاب ' سندھ ' کراچی '
بلوچستان ' خیبر پختونخوا میں رھنے کا حق نہیں ھوگا۔ لیکن پٹھان چونکہ بنیادی طور
پر قبضہ گیر ھیں۔ اس لیے پشتونستان کے قیام کے بعد پٹھانوں نے پنجاب ' سندھ '
کراچی ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا میں سے نکلنے سے انکار کر دینا ھے۔
No comments:
Post a Comment