Monday 22 June 2020

سندھ کے عربی نژاد مسلمانوں کی مفاد پرستی والی سیاست

سندھ میں زیادہ تر عربی نژاد مسلمان سندھی قوم پرست بنے ھوئے ھیں۔ سندھ کے عربی نژاد مسلمان قوم پرست نہیں بلکہ مفاد پرست ھیں۔ پاکستان کے قیام سے پہلے یہ عربی نژاد مسلمان ' مسلم جذبات کو اشتعال دے کر کے ھندو سندھیوں کو ' جو کہ سماٹ تھے ' بلیک میل کرتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سندھ سے سماٹ ھندوؤں کو نکال کر ' ان کے گھروں ' زمینوں ' جائیدادوں اور کاروبار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ عربی نژاد مسلمان ' سندھی قوم پرست بنے بیٹھے ھیں۔

سندھ کے عربی نژاد مسلمان اب مسلمان سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے کے بعد " سندھی قوم پرست " بن کر سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے کے ساتھ ساتھ " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بھی بلیک میل کرتے رھتے ھیں۔

سندھ کے عربی نژاد مسلمانوں کی مفاد پرستی والی سیاست کو سمجھنے کے لیے عربی نژاد مسلمان جی ایم سیّد کی مفاد پرستی والی سیاست کا جائزہ لیتے ھیں۔ جی ایم سیّد سندھ میں ھندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کے بانی بھی تھے اور سندھی قوم پرستی کے لیے قلمی اور فکری جنگ لڑنے میں بھی پیش پیش تھے۔

جی ایم سیّد نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ؛ سندھ سے وہ ھندؤوں کو ایسے نکالیں گے جیسے ھٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکالا تھا۔ پاکستان کی قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش کرنے والے جی ایم سیّد نے بعد میں آنے والے وقتوں میں اسے اپنا "عظیم تاریخی گناہ" قرار دیا تھا۔

انگریز حکومت کی طرف سے 1923 میں سکھر بیئراج کی تعمیر شروع کرکے اور 1932 میں مکمل کرنے کے دوران ھی زمینیں آباد کرنے کے لیے بھی انگریز نے مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کیے اور پنجابی کاشتکار سکھر بیئراج کی غیر آباد سرکاری زمین خرید کر آباد کرنے لگے تو عربی نزادوں بشمول جی ایم سیّد نے اپنی زمین آباد کروانے کے لیے خود بھی مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کردیے۔ لیکن 1880 میں پنجاب میں بھی چونکہ انگریز نے نہری نطام قائم کرنا شروع کیا ھوا تھا اس لیے مشرقی پنجاب کے پنجابی کاشتکار سندھ جاکر زمینیں آباد کرنے کے بجائے پنجاب میں زمین خرید کر زمین آباد کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے جی ایم سیّد نے خود وفد کے ھمراہ مشرقی پنجاب کا دورہ کیا اور سندھ میں زمینیں آباد کرنے کے لیے پنجابیوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جبکہ 1931 میں "سندھ ھاری کمیٹی" قائم کرکے ھاریوں کی سیاسی ' سماجی اور معاشی زندگی کو تحفظ فراھم کرنے کی تحریک بھی شروع کردی۔ اس لیے مسلمان پنجابی ھاریوں کی سندھ آمد کی وجہ سے سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ بھی ھوا اور بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک نے مزید شدت بھی اختیار کرلی۔

جی ایم سیّد نے آل آنڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر کی حیثیت سے پاکستان بننے سے بھی کئی برس قبل بہار میں فسادات کے متاثرین مسلمانوں کو سندھ میں آ کر بسنے کی اپیل کی تھی۔ جس پر ایک بڑی تعداد میں بہاری مسلمان سندھ میں آباد ھوئے۔ جس میں مشہور بہاری مہاجر رھنما مولانا عبدالقدوس بہاری بھی شامل تھے۔

جی ایم سیّد نے 1943 میں 10 کروڑ مسلمانانِ ھند کی آزادی کے لیے ' جسکا سندھ کے مسلمان ایک حصّہ تھے۔ سندھ اسمبلی میں قرار پیش کرنے کے بعد گرما گرم بحث کی۔ جی ایم سیّد کی بحث کا لبِ لباب یہ تھا کہ؛ قیام پاکستان کا مطالبہ بہ حیثیتِ مسلم قوم پرست کر رھے ھیں۔ سندھ اسمبلی نے ھندوستان کے 10 کروڑ مسلمانوں کو علیحدہ قوم قرار دیکر پاکستان کی قرارد منظور کی۔ حالانکہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ اکثریت پنجاب اسمبلی میں تھی لیکن پنجاب اسمبلی نے قراداد منظور نہیں کی تھی۔

جی ایم سیّد نے سیاست میں متحرک ھونے کے بعد پہلے تو اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لئے سندھ میں مذھبی نوعیت کے جھگڑے میں ٹانگ اڑا کر 1939 میں ھندو مسلم فساد کروایا۔ سکھر میں “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ میں ھندوؤں پر جب دھشتگردوں نے چاقو و گولیاں چلائیں تو جی ایم سیّد اس وقت مسلم لیگ سندھ کا لیڈر تھا۔ سندھ سے ھندوؤں کی نقل مکانی کا سب سے بڑا سبب برصغیر کے بٹوارے سے پہلے سندھ میں مسجد منزل گاہ کے فسادات تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں ھونے والے بٹوارے کے بعد سندھ سے شاہ عبد الطیف ' سچل اور سامی کے شارح اور ان کے رسائل مرتب کرنے والے بڑے لوگ سندھ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن میں ڈاکٹر گربخشانی ' کلیان آڈوانی ' لعل چند امر ڈنو مل ' جیٹھ مل پرسرام ' بھیرومل مہرچند آوانی ' ٹی ایل واسوانی اور کئی تھے۔

مسجد منزل گاہ پر برپا ھوئے فسادات سندھ کی امن والی دھرتی اور سندھیوں میں مذھبی رواداری کے لیے بڑا المیہ ھیں۔ یہ فسادات صوفیا کی سرزمین پر کسی بدنما داغ اور کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں لیکن تاریخ کا سچ یہی ھے کہ؛ سندھ میں پاکستان بننے سے نو برس پہلے مذھب کے نام پر ھونے والے فسادات میں ایک رات میں ایک سو لوگوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ سندھ میں یہ خونریزی کا واقعہ مسجد منزل گاہ کے نام سے مشہور ھے۔ جس میں پیروں اور گدی نشینوں پر مشتمل مسلمان اشرافیہ کے ھاتھ رنگے ھیں۔

جی ایم سیّد کو ایسی کیا حاجت تھی کہ کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت ھی اختیار نہ کی بلکہ “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ میں 100 کے قریب سماٹ ھندو سندھیوں کا بے دردی سے لہو بھی بہانا قبول کیا؟ جبکہ “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ کی وجہ سے ھونے والے ھندو مسلم فساد میں دو ھزار کے قریب سماٹ ھندو سندھی مروا دیے؟ کیا جی ایم سیّد کو اندازہ نہیں تھا کہ؛ مذھبی منافرت میں کودنے کے نتائج کیا ھوں گے؟ یہ کون سی قوم پرستی تھی کہ “منزل گاہ سکھر” کا معاملہ جسے مولوی لیڈرشپ اُٹھا رھی تھی اس میں جی ایم سیّد مسلم لیگ کا جھنڈا لے کر کود پڑا؟ کیا جی ایم سیّد کو مسلم قوم پرستی کی نعوذ باالله وحی آئی تھی؟

قیامِ پاکستان کے بعد جی ایم سیّد اچانک مسلم لیگ اور مسلم قوم پرستی چھوڑ کر سندھی قوم پرست بن گیا۔ کیا “منزل گاہ سکھر” میں ھندو مسلم فساد کے موقع پر جی ایم سیّد کے دل میں سندھی قوم پرستی نہ تھی؟ محمد علی جناح بھی اتنا ھی سندھی تھا جتنا جی ایم سیّد سندھی تھا۔ صوبہ سندھ میں قیامِ پاکستان سے قبل جناح کی تصاویر ایسے ھی آویزاں ھوتی تھیں جیسے آج بھٹو کے خاندان اور جی ایم سیّد کی تصاویر آویزاں ھوتی ھیں۔ مگر جی ایم سیّد کا جناح سے اختلاف ذاتی مفاد پرستی کی سیاست کے باعث ھوا اور جی ایم سیّد مسلم قوم پرست سے سندھی قوم پرست بن گیا۔

جناح سے جی ایم سیّد کے اختلافات مسلم لیگ سندھ میں مبینہ طور سیّد گروپ کے غلام حیدر شاہ (سابق وزیر اعلی سندہ مظفر حسین شاہ کے والد) کو انتخابات میں ٹکٹ نہ دینے پر ھوئے۔ لیکن جی ایم سیّد اور ان کے حامی اسے سندھ کے مفادات پر اختلافات قرار دیتے رھتے تھے۔

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد 1972 میں جی ایم سیّد نے بھی سندھ کی آزادی "سندھو دیش" کی شکل میں حاصل کرنے کی بات کی اور سندھ متحدہ محاذ کو "جیے سندھ متحدہ محاذ" میں تبدیل کیا۔ لیکن ان کے اثر و فکر کا اصل حلقہ نوجوان سندھی قوم پرست اور خاص طور سندھ یونیورسٹی سمیت سندھ کے دیگر تعلیمی اداروں میں جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوان کارکن رھے۔

جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا رکن بننا کالج جانے والے اکثر سندھی نوجوانوں کا شوق ھوتا تھا اور ٹہکہ بھی۔ جی ایم سیّد کی جیے سندھ کے نوجوان کارکنوں نے تشدد اور جرائم کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ جس کا اعتراف جی ایم سیّد نے کئی بار برملا کیا۔

No comments:

Post a Comment