Wednesday 24 June 2020

سندھ کے عربی نژادوں اور بلوچوں کی "شازشی سیاست کا کھیل"۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے سندھ کے سادہ لوح عوام کو عربی نژاد اور بلوچ نژاد سندھی قوم پرست بن کر یہ بتاتے رھتے ھیں کہ؛

01۔ سندھ کے وسائل پر پنجابیوں نے قبضے کیے ھیں۔ حالانکہ سندھ پر قبضہ کرنا عربی نژادوں نے 712 میں شروع کیا اور بلوچ نژادوں نے 1783 میں سندھ پر قبضہ کرلیا تھا۔ جبکہ پنجابیوں نے انگریز کے سندھ میں 1901 میں نہری نظام قائم کرنے کے بعد غیر آباد زمینوں کو خرید کر آباد کیا۔ جنہیں 1972 میں سندھودیش کی تحریک شروع کرکے پنجابیوں کی اکثریت سے اونے پونے داموں خرید لیا گیا یا قبضے کرنے کے بعد پنجابیوں کو واپس پنجاب بھیج دیا گیا۔ جبکہ پنجابیوں نے کراچی میں صنعتیں لگا کر سندھ کی صنعت کو بھی فروغ دیا لیکن 1986 میں ھندوستانی مہاجروں نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے دھشتگرد سیاسی جماعت بناکر پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنی شروع کردی۔ اس لیے پنجابیوں نے کراچی کے بجائے پنجاب میں ھی صنعتیں لگانے کو ترجیح دینا شروع کردی۔ بلکہ کراچی سے اپنی صنعتیں پنجاب بھی منتقل کرلیں۔

02۔ پنجابیوں نے سندھیوں کی زمین پر قبضہ کیا ھے۔ حالانکہ انگریز حکومت کی طرف سے 1923 میں سکھر بیئراج کی تعمیر شروع کرکے اور 1932 میں مکمل کرنے کے دوران ھی زمینیں آباد کرنے کے لیے بھی انگریز نے مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کیے اور پنجابی کاشتکار سکھر بیئراج کی غیر آباد سرکاری زمین خرید کر آباد کرنے لگے تو عربی نژاد بشمول جی ایم سید اور بلوچ نژاد مسلمانوں نے اپنی زمین آباد کروانے کے لیے خود بھی مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کردیے۔ لیکن 1880میں پنجاب میں بھی چونکہ انگریز نے نہری نطام قائم کرنا شروع کیا ھوا تھا اس لیے مشرقی پنجاب کے پنجابی کاشتکار سندھ جاکر زمینیں آباد کرنے کے بجائے پنجاب میں زمین خرید کر زمین آباد کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے جی ایم سید نے خود وفد کے ھمراہ مشرقی پنجاب کا دورہ کیا اور سندھ میں زمینیں آباد کرنے کے لیے پنجابیوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جبکہ 1931 میں "سندھ ھاری کمیٹی" قائم کرکے ھاریوں کی سیاسی ' سماجی اور معاشی زندگی کو تحفظ فراھم کرنے کی تحریک بھی شروع کردی۔ اس لیے سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ بھی ھوا اور بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک نے مزید شدت بھی اختیار کرلی۔ جبکہ کراچی میں انڈسٹریل زون بنانے کی وجہ سے پنجابیوں نے کراچی جاکر صنعتیں لگائیں اور سندھ کی صنعتی ترقی کو فروغ دیا۔

03۔ موجودہ صوبہ سندھ کا نقشہ ھزاروں سال پرانا ھے۔ موجودہ صوبہ سندھ 5 ھزار سال پرانی تہذہب کا علمبردار ھے۔ حالانکہ موجودہ صوبہ سندھ کو 1936 میں انگریز وجود میں لایا تھا۔

04۔ سندھ کی زبان ھزاروں سال پرانی ھے۔ حالانکہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری جس زبان میں ھے وہ عام سندھی کو سمجھ میں نہیں آتی اور نہ وہ الفاظ موجودہ دور میں بولی جانی والی سندھی میں عام طور پر استعمال ھوتے ھیں۔

05۔ سندھ پر ھمیشہ سے سندھیوں کی حکمرانی رھی ھے۔ حالانکہ سندھ پر 1843 سے لیکر 1947 تک 104 سال انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ 1783 سے لیکر 1843 تک 60 سال کردستانی نژاد تالپور بلوچ کی حکمرانی تھی۔ 1701 سے لیکر 1783 تک 82 سال عربی نژاد عباسی کلھوڑا کی حکمرانی تھی۔ 1591 سے لیکر 1701 تک 110 سال مغلوں کی حکمرانی تھی۔ 1554 سے لیکر 1591 تک 37 سال ترک نژاد ترکھانوں کی حکمرانی تھی۔ 1520 سے لیکر 1554 تک 34 سال ترک نژاد ارغونوں کی حکمرانی تھی۔ 712 سے لیکر 1024 تک 312 سال عربوں کی حکمرانی تھی۔ جبکہ سندھ پر سندھیوں کی حکمرانی 1335 سے لیکر 1520 تک 185 سال سمہ خاندان کی رھی اور 1024 سے لیکر 1335 تک 311 سال سومرا خاندان کی رھی۔

06۔ سندھی ٹوپی ھزاروں سال پرانی ثقافت ھے۔ حالانکہ ھزاروں سال سے سماٹ سندھیوں کی ثقافت پگڑی رھی ھے۔ جبکہ سندھی ٹوپی 1520 سے لیکر 1554 تک سندھ پر 34 سال حکمرانی کرنے والے ترک نژاد ارغونوں نے متعارف کروائی تھی۔

07۔ شاہ لطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں قوم پرستی کا پیغام دیا ھے۔ جبکہ شاہ لطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں خدا پرستی کا پیغام دیا ھے۔

08۔ سندھی اور ھندو ھمیشہ سے خوش و خُرّم زندگی گزارتے آئے ھیں۔ سندھ میں ھندو مسلم فساد تو کبھی ھوا ھی نہیں۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے پہلے 712 سے لیکر 1024 تک کے 312 سال سندھ پر عربوں کی حکمرانی رھی اور عربوں نے 712 سے ھی سندھ کے اصل باشندوں ' سماٹ ھندوؤں پر جنگ مسلط کرکے اور سندھ پر قبضہ کرکے ' سندھ میں ھندو مسلم فساد کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جو پاکستان کے قیام اور سماٹ ھندوؤں کے پاکستان کے قیام کے بعد سندھ چھوڑ کر چلے جانے تک جاری رھا۔ نندیتا بھونانی اپنی کتاب میں لکھتی ھیں کہ؛ تقسیم ھندوستان سے پہلے ھی سندھی مسلمانوں نے ھندوؤں کو لوٹنا اور انکی زمینوں پہ قبضے کرنے شروع کردیے تھے۔ جو سماٹ ھندو اس وقت بھی سندھ میں موجود ھیں وہ اب بھی عربی نژاد اور بلوچ نژاد مسلمان سندھیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رھتے ھیں۔

09۔ قیامِ پاکستان میں سندھیوں سے دھوکہ ھوا۔ مہاجروں کو پنجابیوں نے سندھ بھیج دیا کہ پاکستان آگے ھے۔ جبکہ پاکستان کی 2017 کی آدم شماری کے مطابق کراچی میں 51 لاکھ اردو بولنے والے مھاجر ھیں اور پنجاب میں 53 لاکھ اردو بولنے والے مھاجر ھیں۔

10۔ دریا کے پانی پر بین الاقوامی قانون کے مطابق پہلا حق دریا کے نچلے حصے کا ھوتا ھے۔ اس لیے پنجاب کی طرف سے سندھ کا پانی چوری کیا جاتا ھے۔ جبکہ دریا کے پانی یا دریا کے نچلے حصے کے لئے کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ھے۔ دریا کے پانی کو اب بھی جس ملک میں دریا ھو اس ملک کے اپنے بنائے گئے قانون کے مطابق کنٹرول کیا جاتا ھے۔ البتہ بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کے استعمال پرتجویز کیے گئے قواعد جیسا کہ ھیلسنکی قواعد اور اکیسویں صدی میں پانی کی حفاظت پر ھیگ اعلامیہ کی تجاویز موجود ھیں۔ لیکن یہ قوائد اور تجاویز ابھی تک قانونی شکل اختیار نہیں کر سکیں ھیں۔ مسئلہ یہ ھے کہ سندھیوں کو ایک تو قوائد اور قانون میں فرق سمجھ نہیں آرھا اور دوسرا یہ سمجھ نہیں آرھا کہ تجاویز کوئی معاھدہ نہیں ھوتیں بلکہ باھمی معاھدہ کرنے کے لیے مشورے ھوتے ھیں۔ اس لیے ایک تو مفت میں سندھ کو پنجاب سے پانی مل رھا ھے اور سندھیوں کی طرف سے پنجاب کو گالیاں بھی دی جاتی ھیں۔

اب ظاھر ھے جب کوئی قوم پرست بن کر جھوٹ گڑھے گا اور فریب کے جال بنے گا۔ وہ بھی سات دھائیوں سے اور مستقل بغیر کسی روک ٹوک کے تو اسکے اثرات بھی ھوں گے۔ ایک عام سندھی کا مشتعل ھونا۔ پنجابی سے نفرت کرنا۔ اس جھوٹے پروپیگینڈے کا ھی سبب ھے۔ ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ؛ جس وقت عربی نژاد اور بلوچ نژاد کے سندھی قوم پرست بن کر جھوٹ و فریب کے بیج سادہ لوح سندھیوں میں بوئے جانے لگے تھے ' تو اس جھوٹ کی اس وقت ھی سرکوبی کی جاتی۔ مگر ایسا نہیں ھوا۔ سرکاری و سیاسی اور سماجی و ادبی طور پر عربی نژاد اور بلوچ نژاد کے سندھی قوم پرست بن کر کیے جانے والے جھوٹے پروپیگینڈے کی سرکوبی نہ کی گئی۔ قوم پرستی عشق کی طرح اندھی ھوتی ھے ۔ دھرتی ماں ھو یا نہ ھو۔ مگر قوم پرستی کی پہچان یہ ھی ھے کہ؛ عقل سے عاری انسان اپنی قوم کی محبت میں ھر کہے جھوٹ کو سچ سمجھ لے اور پھر اپنے ھی سمجھے ھوئے جھوٹے سچ پر قوم پرستی کے بند مینار تعمیر کرتے ھوئے دوسری قوموں سے کسی نہ کسی بہانے نفرت کا کھل کر اظہار کرے۔

No comments:

Post a Comment