پنجابیوں
کی اکثریت کی طرف سے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ
کے عربی نزاد کی پنجاب اور پنجابی قوم کے بارے میں کی جانے والی سیاسی سازشوں اور
ان کے تدارک کے بارے میں لکھا جانا پسند کیا جاتا ھے۔
دراصل
عرصہ دراز سے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ کے عربی
نزاد کی طرف سے پنجابیوں کی "کھٹیا کھڑی" کی جاتی رھی۔ جبکہ پنجابی صرف
اخلاق ' فلسفے اور دانشوری کے دائرے میں رہ کر جواب دیتے رھے۔
پنجابیوں
کی طرف سے صرف اخلاق ' فلسفے اور دانشوری کے دائرے میں رہ کر دیے جانے والے جواب
کو نہ تو پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ کے عربی
نزاد نے اھمیت دینی تھی اور نہ تسلیم کرنا تھا۔ اس لیے انہوں نے نہ تو اھمیت دی
اور نہ تسلیم کیا۔
اس لیے پنجابیوں کی طرف سے اب بہتر یہ ھی سمجھا جا رھا ھے کہ؛ اخلاق ' فلسفے اور دانشوری کے دائرے میں رہ کر پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ کے عربی نزاد کو مطمئن کرکے مفاھمت کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے پنجابیوں کے لیے "سیاسی بیانیہ" بنانے پر دھیان دیا جائے۔ تاکہ پنجابیوں کے خلاف پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ کے عربی نزاد کے بنائے گئے سیاسی "بیانیہ" کا پنجابیوں کی طرف سے بھی سیاسی "بیانیہ" کے ذریعے جواب دیا جاسکے۔
اس کے علاوہ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ کے عربی نزاد کی پنجابیوں کے خلاف "سیاسی صف بندی" کے مقابلے میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کی "سیاسی صف بندی" کی جائے۔
فزکس
میں نیوٹن کا قانون نمبر ایک ھے کہ؛ ھر عمل کا رد عمل ھوتا ھے۔ جبکہ قانون نمبر دو
ھے کہ؛ ھر عمل کا برابر اور الٹا رد عمل ھوتا ھے۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی
مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ کے عربی نزاد کے پنجابیوں کے خلاف شروع کیے گئے
عمل کا آخر پنجابیوں کی طرف سے رد عمل بھی آنا ھی تھا اور رد عمل بھی عمل کی نوعیت
کے مطابق برابر اور الٹا ھی آنا تھا۔
ابھی
تو 2020 سے پنجابیوں کا پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی
سندھ کے عربی نزاد کے لیے رد عمل اور وہ بھی عمل کی نوعیت کے مطابق برابر اور الٹا
رد عمل آنا شروع ھوا ھے۔ 2030 تک رد عمل کہاں تک پہنچ جائے گا؟
No comments:
Post a Comment