Monday, 22 June 2020

کراچی پر اردو بولنے والے ھندوستانی "انڈین ایجنٹوں" کا قبضہ کیسے ختم ھو سکتا ھے؟

پاکستان کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا اسی طرح یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو چاھیئے تھا کہ یوپی اور سی پی کے علاقوں کو بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتے۔ لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان تو 1947 میں پاکستان کے بن جانے کے باوجود بھی آرام اور سکون کے ساتھ یوپی ' سی پی میں ھی بیٹھے رھے۔

البتہ پاکستان کے قیام کے بعد یوپی کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا اور پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر یوپی ' سی پی میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمان لاکر قابض کروا دیے گئے۔

پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض ھوجانے والے یوپی ' سی پی والوں نے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لانے کی راہ ھموار کرنا شروع کردی۔

1950 میں ھونے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں میں بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرکے زمینوں اور جائیدادوں پر بھی قبضے کروا نے شروع کردیے گئے۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی  سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ؛ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پاکستانی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو و سکھ پنجابیوں اور ھندوستانی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ؛ اب یہ  یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب کراچی پر مکمل طور پر قابض بھی ھے اور لسانی عصبیت کا شکار بھی ھے۔

دراصل 1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کئے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ھوگیا۔

اب یہ اردو بولنے والے ھندوستانی گذشتہ تین دھائیوں سے "ایم کیو ایم" کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازشیں کر رھے ھیں اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی پشت پناھی اور تعاون کرتے ھیں تاکہ؛ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی "انڈین ایجنٹوں" کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔

پاکستان کی 2017 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 1 کروڑ 50 لاکھ ھے۔ کراچی میں 50 لاکھ اردو بولنے والے ھندوستانی ' 25 لاکھ پنجابی ' 25 لاکھ پٹھان ' 25 لاکھ کشمیری ' گلگتی بلتستانی کوھستانی ' ھزارہ ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی و دیگر ' 15 لاکھ سندھی ' 10 لاکھ بلوچ رھتے ھیں۔

کراچی پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانی "انڈین ایجنٹوں" کی منظم دھشتگردی ' بھتہ خوری اور ملک دشمنی والی حرکتوں کو صرف رینجرس کے ذریعے انتظامی آپریشن سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی کی اکثریتی آبادی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان اور بلوچ کو سیاسی طور پر منظم ' متحد اور مظبوط کرکے انہیں کراچی کی اقلیتی اردو بولنے والی ھندوستانی آبادی کی سیاسی بالادستی کے چنگل سے نجات دلوائے بغیر؛ نہ کراچی کے اردو بولنے والے ھندوستانی "انڈین ایجنٹوں" کی منظم دھشتگردی ' بھتہ خوری اور ملک دشمنی والی حرکتیں ختم ھونی ھیں ' نہ کراچی میں امن اور سکون ھونا ھے۔

No comments:

Post a Comment